کشمیر ‘ انتخابی عمل کے اشارے

   

تقریبا دو سال بعد یہ اشارے مل رہے ہیں کہ مرکزی حکومت جموں و کشمیر میںسیاسی عمل کو بحال کرنے پر غور کر رہی ہے ۔ وہ جموں و کشمیر میں انتخابات کروانے کے تعلق سے بھی جائزہ لے رہی ہے ۔ اس سلسلہ میں جو اطلاعات مل رہی ہیں ان کے مطابق مرکزی حکومت انتخابات کے اعلان سے قبل دونوں مرکزی زیر انتظام علاقوں کو ایک بار پھر ریاست کا درجہ دینے اور انتخابات کروانے کے تعلق سے ریاستی سیاسی جماعتوں کے ساتھ تبادلہ خیال کا آغاز کرسکتی ہے۔ گذشتہ دنوں سے مرکزی حکومت اور ریاستی انتظامیہ کے درمیان جو تال میل چل رہا ہے اس سے یہ اشارے مل ہی رہے تھے اور اب خود مرکزی حکومت کی جانب سے اشارے دئے گئے ہیں کہ حکومت ریاست میں انتخابی عمل کو بحال کرنے پر غور کر رہی ہے اور اس سلسلہ میں ریاست کیس یاسی جماعتوں کے ساتھ تبادلہ خیال کا آغاز ہوسکتا ہے ۔ ابھی حالانکہ اس تعلق سے مرکزی حکومت نے کچھ بھی واضح طور پر نہیں کہا ہے لیکن یہ کہا جا رہا ہے کہ حالیہ عرصہ میں اس سے متعلق سرگرمیوں میں اضافہ ہوگیا ہے ۔ ریاست میں خود مقامی سیاسی جماعتیں بھی اب بتدریج سرگرم ہو رہی ہیں۔ سات سیاسی جماعتوں پر مشتمل جو اتحاد گپکار اتحاد تشکیل دیا گیا تھا وہ گذشتہ چھ ماہ سے غیر کارکرد ہوگیا تھا تاہم تین دن قبل اچانک ہی نیشنل کانفرنس لیڈر ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے پی ڈی پی لیڈر محبوبہ مفتی سے ان کی قیامگاہ پہونچ کر ملاقات کی تھی اور اس وقت گپکار اتحاد کے دوسرے قائدین بھی موجود تھے ۔ آج مرکزی منسٹر آف اسٹیٹ داخلہ جی کشن ریڈی بھی جموں وپہونچ گئے اور یہ دعوی کیا کہ ریاست میں تخریب کاری اور تشدد پر قابو پایا گیا ہے ۔ گذشتہ دو سال میں وادی کی اور جموں کی صورتحال میں بہتری بھی آئی ہے ۔ مرکز کی اچانک سرگرمیوں اور مقامی گپکار اتحاد کے قائدین کی نقل و حرکت کے بعد یہ اشارے مزید مستحکم ہوگئے ہیں کہ ریاست میں سیاسی اور انتخابی عمل کو بحال کرنے کی سمت پیشرفت ہو رہی ہے اور مرکزی حکومت نے یہ منصوبہ تیار کرلیا ہے ۔ ا اس منصوبے کو عملی شکل دینے کی سمت پیشرفت کا دھیمی رفتار سے آغاز تو کردیا گیا ہے ۔
گذشتہ تقریبا دو سال سے ریاست میں سیاسی سرگرمیاں بالکل ٹھپ ہیں ۔ وہاں سیاسی قائدین کو پہلے تو گرفتار کیا گیا یا پھر گھروں پر نظربند کیا گیا ۔ ان کے خلاف انتہائی سنگین دفعات کے تحت مقدمات دائر کئے گئے تھے جنہیں عدالتوں نے مسترد کردیا ۔ پھر ان قائدین کو مختلف پابندیوں کے ساتھ گھروں پر رکھا گیا ۔ سیاسی سرگرمیوں کی کوئی اجازت نہیں دی گئی تھی ۔ گپکار اتحاد مقامی سات جماعتوں پر مشتمل ہے جس نے جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کاد رجہ بحال کرنے کیلئے جدوجہد شروع کی تھی ۔ اب اس اتحاد کو سیاسی سرگرمیاں بحال کرنے میں بھی دلچسپی ہے اور نیشنل کانفرنس کے لیڈر فاروق عبداللہ کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی مرکزی حکومت کی جان سے ریاست سے متعلق کسی بھی مشاورتی عمل کا حصہ بننے تیار ہے ۔ اسی طرح پی ڈی پی نے بھی سیاسی سرگرمیوں کی بحالی کی حمایت کی ہے اور یہ اشارہ دیا ہے کہ وہ بھی شائد بات چیت کے عمل کا حصہ بن سکتی ہے ۔ یہ اشارے ہیں کہ یہاں سیاسی سرگرمیوں کو بحال کیا جاسکتا ہے ۔ مرکزی حکومت کے اپنے منصوبے کیا ہیں ان کا تو کوئی علم نہیں ہوسکا ہے لیکن یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ یہاں نہ صرف سیاسی سرگرمیوں کی بحالی کے آثار پیدا ہوگئے ہیں بلکہ جموں و کشمیر کے علاقوں کو ایک بار پھر ریاست کا درجہ بحال کیا جاسکتا ہے ۔ یہ کام جمہوریت کے حق میں ہوگا اور اس سے دونوں ہی علاقوں کے عوام کو اعتماد میں لینے میں مدد مل سکتی ہے اور انتخابات کے انعقاد کیلئے بھی یہ اقدامات سازگار ہوسکتے ہیں۔
گذشتہ دو سال میں وہاں جو صورتحال رہی ہے وہ سارے ملک پر عیاں ہے ۔ جموں و کشمیر کے مسئلہ پر بیرونی ممالک نے بھی اظہار خیال کیا ہے اور امریکہ نے بھی ہندوستان پر زور دیا تھا کہ وہاں معمول کے حالات کو جلد بحال کیا جائے ۔ ان ممالک کے بیانات سے قطع نظر یہ بات ضرور کہی جاسکتی ہے کہ حکومت کو حقیقت میں جموں و کشمیر میں عام حالات کو بحال کرنے اور وہاں کے عوام کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے ۔ انہیں اپنی پسند کی حکومت کے انتخاب کا موقع دیا جانا چاہئے ۔ وہاں معاشی سرگرمیوں کا اور سیاحتی سرگرمیوں کا احیاء ہونا چاہئے اور انتخابات کے انعقاد کے ذریعہ سیاسی سرگرمیوں کو بھی بحال کیا جانا چاہئے۔