کشمیر میں داعش موجود نہیں: پولیس سربراہ

   

سری نگر، 2 جنوری(سیاست ڈاٹ کام) جموں کشمیر کے پولیس سربراہ دلباغ سنگھ نے وادی میں داعش کی بھاری تعداد میں موجودگی کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے کہا کہ وادی میں اگرچہ داعش موجود نہیں ہے لیکن یہاں ایسے عناصر موجود ہیں جو داعش کی فکر کی تشہیر کرکے نوجوانوں کو انتہا پسندی کی راہ پر گامزن کررہے ہیں۔ چہارشنبہ کے روز یہاں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پولیس سربراہ نے کہا کہ ماضی میں بھی سرعام داعش کے جھنڈوں کی نمائش کرکے یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہاں بھاری تعداد میں داعش موجود ہے لیکن ہم ایک بار پھر یہ بات واضح کرنا چاہتے ہیں کہ یہاں داعش کی اس قدر موجودگی نہیں ہے تاہم نوجوانوں کو انتہا پسند بنانے کی کوششوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ حال میں سرینگر کی تاریخی جامع مسجد میں پیش آئے واقعے کے حوالے سے انہوں نے کہا یہاں ایک سیکولر ماحول ہے جس میں مذہبی جائے مقامات کو مقدس گردانا جاتا ہے ۔ قابل ذکر ہے کہ گزشتہ جمعہ کو تاریخی ماجع مسجد میں نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد چند نقاب پوش افراد نے مسجد میں داخل ہوکر منبر پر داعش کے جھنڈے کو لہرانے کی کوشش کی تھی ۔تاہم اس واقعے کی تمام مذہبی وسیاسی جماعتوں نے شدید الفاظ میں مذمت کی ہے ۔ ریاست میں امن و قانون کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے پولیس سربراہ نے کہا کہ سال 2018کے دوران وادی کشمیر میں حالات مجموعی طور پر ساز گار
رہے۔

انہوں نے کہا کہ سال رفتہ کے دوران کل ملاکر 97 ملی ٹنسی مخالف آپریشنز ہوئے جن میں سے 83 آپیشنز کے دوران کسی بھی عام شہری کی زندگی کا زیاں نہیں ہوا جبکہ باقی آپریشنز میں چند عام شہری ہلاک ہوئے جس پر ہمیں بے حد افسوس ہے ۔ انہوں نے نوجوانوں سے ایک بار پھر اپیل کی کہ وہ سیکورٹی فورسزاور جنگجوؤں کے درمیان تصادم آرائیوں کے مقامات پر جانے سے احتراز کرکے اپنی قیمتی جانوں کوضائع ہونے سے بچائیں۔ انہوں نے وادی میں جاری تشدد کیلئے پاکستان کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے کہا کہ وادی میں تشدد کے واقعات میں اضافے کی وجہ سرحدد پار کی جارہی کوششیں ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سرحد پار سے بچوں کو ملی ٹنسی میں کھینچنے اور وہاں سے ملی ٹنٹوں کو وادی میں بھیجنے کا بھر پور سلسلہ جاری ہے ۔ سال رفتہ کے دوران ہلاک ہوئے پولیس اہلکاروں کو سلام اور ان کے اہلخانہ کو تعزیت پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سال گذشتہ کے دوران 45 پولیس اہلکار ہلاک جبکہ سیکورٹی فورسز کے بھی40 اہلکار از جان ہوئے ۔ انہوں نے کہا کہ اس دوران کافی تعداد میں عام شہری بھی ہلاک ہوئے جن میں سے 44 افراد کو جنگجوؤں نے ہلاک کیا۔انہوں نے کہا کہ سرکار ریاستی وقومی سطح پر پولیس کی تمام ضرورتوں کو پورا کرنے کیلئے کوشاں ہے ۔ انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کے نوجوان اپنے کیرئر کو لے کر بہت ہی متفکر ہیں جو ہمارے لئے باعث فکر ہے جس کاثبوت یہ ہے جس دن یہاں کشمیر بند کی کال تھی عین اسی روز کشمیر کے کونے کونے سے نوجوان فائر سروس کے امتحان میں حصۃ لینے کیلئے حاضر ہوئے ۔