کشمیر پر وزیر اعظم مودی کا خطاب

   

اپنی تو محبت کی بس اتنی کہانی ہے
ٹوٹی ہوئی کشتی ہے ‘ ٹہرا ہوا پانی ہے
کشمیر پر وزیر اعظم مودی کا خطاب
گذشتہ دنوں مرکزی حکومت کی جانب سے جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کردی گئی ۔ دستور کے دفعہ 370 کو حذف کردیا گیا اور ریاست کو دو حصوں میں تقسیم کرتے ہوئے انہیںدو مرکزی زیر انتظام علاقے بنادیا گیا ہے ۔ ایک علاقہ جو جموں و کشمیر کا ہے وہ مقننہ کے ساتھ مرکزی زیر انتظام علاقہ ہوگا جبکہ لداخ ایک الگ علاقہ ہوگا جو مقننہ کے بغیر ہوگا ۔ کشمیر میں تحدیدات عائد کردی گئی ہیں اور وہاں عوام کا گھروں سے باہر نکلنا روک دیا گیا ہے ۔ آج حالانکہ جمعہ کے موقع پر نرمی ضرور دی گئی اور عوام نے اپنی مقامی مساجد میں جمعہ کی نماز ادا کی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے کل جمعرات ہی کو قوم سے اس مسئلہ پر خطاب کیا تھا اور انہوں نے عید اور نماز جمعہ کیلئے کوئی رکاوٹ نہ ہونے کا وعدہ کیا تھا ۔ اب جبکہ نماز جمعہ کیلئے اجازت تو دی گئی تاہم تحدیدات کا نفاذ برقرار ہے جس سے عید سے قبل مقامی عوام کو مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ علاوہ ازیں اگر روز مرہ کی مصروفیات کو بند کردیا جائے تو نہ صرف جموں و کشمیر بلکہ ساری جو سابقہ ریاست ہے اس کے تمام علاقوں میں عوام کیلئے مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ خاص طور پر مواصلاتی رابطے جو منقطع کردئے گئے ہیں ان کے نتیجہ میں زیادہ مسائل ہو رہے ہیں۔ ہندوستان کے تقریبا ہر شہر میں کشمیری طلبا تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ تاجرین بھی کئی شہروں میں کاروبار میں مصروف ہیں اور انہیں اپنے رشتہ داروں سے رابطے نہ ہونے کی وجہ سے فکر لاحق ہو رہی ہے ۔ رشتہ داروں سے کئی دنوں سے ان کا کوئی رابطہ نہیں ہوسکا ہے ۔اگر انٹرنیٹ خدمات کو سکیوریٹی وجوہات کی بناپر مزید روکے رکھنا ضروری بھی ہے تو حکومت فون کالس کو بحال کرنے پر غور کرسکتی ہے تاکہ کشمیر کے عوام کو قدرے راحت مل سکے اور وہ اپنے اور اپنے عزیزوں کی خیریت سے مطلع کرسکیں۔ جو کشمیری طلبا اور تاجر ریاست سے باہر ہیں وہ وہاں اپنے رشتہ داروں کی خیریت دریافت کرسکیں۔ اس کے علاوہ تحدیدات میں بتدریج نرمی پیدا کئے جانے کی بھی ضرورت ہے تاکہ معمولات کو بحال کیا جاسکے ۔ روز مرہ کی مصروفیات کو بحال کرتے ہوئے حالات پر قریبی نظر بھی رکھی جاسکتی ہے ۔
وزیر اعظم نے کل جو خطاب کیا وہ کشمیری عوام کیلئے زیادہ اثر انگیز یا متاثر کن ثابت نہیں ہوا ہے ۔ کئی کشمیری گوشوں کا کہنا تھا کہ وہ وزیر اعظم سے مزید توقعات کر رہے تھے ۔ وہ چاہتے تھے کہ وزیر اعظم ریاست میں تحدیدات میں نرمی کا اعلان کریں اور عوام کو اعتماد میں لینے کیلئے اقدامات کا بھی تذکرہ کریں۔ کشمیریوں میں یہ احساس بھی ہے کہ ریاست کے خصوصی موقف کو ختم کرنے سے قبل ہی انہیں اعتماد میں لیا جانا چاہئے تھا اور جس طرح سے ان پر عدم اطمینان کا اظہار کیا گیا ہے وہ مناسب نہیں ہے ۔ کم از کم اب جب سارے فیصلے ہوچکے ہیں اور نفاذ بھی ہوچکا ہے تو عوام کو اعتماد میں لینے کیلئے وزیر اعظم کو عوام تک رسائی کیلئے مزید کچھ کہنے اور کرنے کی ضرورت تھی جو نہیں کہا گیا ہے اور نہ کیا گیا ۔ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں سیاست کا احاطہ کرنے سے بھی گریز نہیں کیا ۔سابقہ حکومتوں کو بھی انہوں نے تنقید کا نشانہ بنایا اور کچھ قائدین کا نام لیتے ہوئے یہ دعوی کیا کہ وہ چاہتے تھے کہ دستور کا دفعہ 370 حذف ہو اور مرکز کے اقدام سے ان کے خواب کی تکمیل ہوئی ہے ۔ ان قائدین میں وزیر اعظم نے دستور ہند کے معمار ڈاکٹر بی آر امبیڈکر کا نام بھی لیا ۔ اب یہ واضح نہیں کیا کہ ڈاکٹر امبیڈکر کے بنائے گئے قانون ہی میں دفعہ 370 کو شامل کیا گیا تھا اور انہوں نے جب اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ اس دفعہ کو دستور سے حذف کردیا جانا چاہئے ۔
وزیر اعظم نے ریاست میں جائیدادوں پر تقررات ‘ نوجوانوں کو روزگار فراہم کرنے کیلئے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات وغیرہ کا اعلان کیا ہے ۔ ان اقدامات کے ذریعہ نوجوانوں کو اعتماد میں لیا جاسکتا ہے ۔ انہیں معیشت اور روزگار سے جوڑتے ہوئے ان کیلئے مواقع فراہم کئے جاسکتے ہیں۔ انہیں ترقی کے ثمرات میں حصہ دار بنایا جاسکتا ہے ۔ وزیر اعظم نے جو اعلان کیا ہے اس پر عمل آوری کو ترجیح دی جانی چاہئے ۔ سارے انتظامیہ کو اس کیلئے متحرک کیا جانا چاہئے ۔ جس قدر تیزی سے ان وعدوں پر عمل آوری کا آغاز ہوگا اتنا ہی کشمیر ‘ کشمیری عوام اور سارے ہندوستان کے عوام کیلئے بھی ضرور بہتر ہوسکتا ہے ۔