کورونا اور مودی کے ناقص اقدامات

   

کپل کومی ریڈی
وزیراعظم نریندر مودی نے 24 مارچ 2020 کو ملک بھر میں کورونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کی خاطر لاک ڈاون نافذ کیا اور یہ انسانی تاریخ کا سب سے بڑا لاک ڈاون ہے۔ اس سے قبل مودی کے لئے کووڈ ۔ 19 ایک بیماری کے سواء کچھ نہیں تھی حالانکہ اس بیماری نے ایک عالمی وباء کی شکل اختیار کرلی جس کا خمیازہ فی الوقت ہندوستان کے بشمول ساری دنیا بھگت رہی ہے۔ ویسے بھی کووڈ ۔ 19 اور پھر لاک ڈاون نافذ کئے جانے سے قبل ہی ہندوستانی وزیر اعظم اپنے خود کے پیدا کردہ کئی ایک بحرانوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔
انہوں نے ہندوستانی سیکولرزم کو بہت غیر ضروری اور ناقابل قبول قانون سازی کے ذریعہ بدنما کردیا جس کے خلاف شہریوں نے احتجاج کا آغاز کیا۔ ایسا احتجاج جو ملک کے تمام بڑے شہروں تک پھیل گیا۔ دوسری طرف ماہ فروری میں دہلی میں اپنی نوعیت کے بدترین فرقہ وارانہ فسادات برپا ہوئے۔ اس خون آشامی کو 1984 میں مخالف سکھ فسادات کے بعد بدترین خون آشامی کہا جاسکتا ہے۔ ان فسادات میں دہلی جو ہمارے ملک کی راجدھانی یا دارالحکومت وہاں ہے کم از کم چار درجن انسانی جانوں کا اتلاف ہوا۔ ایک طرف مودی اپنی ہی غلطیوں کے باعث احتجاجی مظاہروں کا سامنا کررہے تھے دوسری طرف دہلی فرقہ وارانہ فسادات ان کے لئے ایک اور بدنامی کا باعث بن گئے تھے۔ تیسرے ملک میں بیروزگاری نقطہ عروج پر پہنچ چکی تھی حد تو یہ ہے کہ معیشت بھی سست روی کا شکار ہوکر مودی کی مصیبتوں میں مزید اضافہ کا باعث بن گئی تھی گزشتہ دس برسوں میں اس طرح کی معاشی سست روی نہیں دیکھی گئی۔
مودی کے نئے ہندوستان میں ایسا لگتا ہے کہ قیادت کی نااہلی اور ناروا سلوک کے باعث بحران کے بعد بحران کا تسلسل شروع ہوا۔ بالفاظ دیگر مودی حکومت کی نااہلی کے نتیجہ میں عوام بھی پریشانیوں اور مشکلات کی شکار ہوگئی لیکن عین اسی وقت چین سے ایک وائرس کی شکل میں مودی کے لئے نجات دہندہ آگیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ہندوستانی عوام کی توجہ اصل مسائل سے ہٹ کر اس وائرس کے باعث ہونے والی تباہی و بربادی پر مرکوز ہوگئی۔
صرف اپریل کے وسط تک لاک ڈاون کے نتیجہ میں تقریباً 200 لوگوں کی زندگیوں کا خاتمہ ہوگیا۔ ان میں سے بعض ایسے تھے جو طویل فاصلہ پیدل طئے کرنے کے باعث زندگی کی لڑائی ہار گئے ، وہ اس قدر تھک گئے تھے کہ ان کی سانسوں نے بھی ان کا ساتھ دینا چھوڑ دیا تھا۔ کچھ لوگوں نے تنہائی برداشت نہ کرتے ہوئے اپنے ہی ہاتھوں اپنی زندگیوں کو ختم کرلیا۔ہندوستان میں لاک ڈاون نہ صرف کورونا وائرس کے پھیلاو کو دبانے میں کامیاب ہوا ہے بلکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو موثر انداز میں معطل کرنے میں بھی کامیاب رہا۔ ایسے حالات پیدا کئے گئے جہاں مودی کی غلط مینیجمنٹ و نااہلی پر تنقید کرنے والوں پر غداری کے الزامات تھوپے جانے لگے۔ اس کے برعکس مودی کے ہر صحیح غلط اقدامات کی تعریف و ستائش کرنے اور مودی کے گن گانے کو ایک فرض شناس شہری ہونے کا پیمانہ سمجھاجانے لگا۔

لاک ڈاون کے دوران مودی نے ٹیکس سے پاک عطیات جمع کرنے کی خاطر ایک مبہم فنڈ کا قیام عمل میں لایا اس سلسلہ میں مودی کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس کے اس بحران میں غریبوں کی مدد کے مقصد سے یہ ٹرسٹ یا فنڈ قائم کیا گیا اور عجیب و غریب انداز میں قائم PM CARE فنڈ سے ایسا لگا کہ ہیتی کے سابق آمر حکمراں پاپا ڈاک ڈووالیئر نے اپنی حکومت میں جو کھیل کھیلا تھا ہمارے ملک میں بھی وہی کھیل کھیلا جائے گا۔ دلچسپی کی بات یہ رہی کہ مودی کے قائم کردہ اس پرائم منسٹر کیرس فنڈ میں صرف پہلے ہی ہفتہ میں تقریباً 7000 کروڑ روپے جمع ہوگئے۔ سرکاری محکمہ جات کے ارکان کو سرکیولرس جاری کرتے ہوئے اپنی تنخواہوں کا ایک حصہ مذکورہ فنڈ میں دینے کے لئے کہا گیا۔ نجی کمپنیوں نے پی ایم کیرس فنڈ میں کروڑہا روپے جمع کروائے جبکہ ان کمپنیوں نے اپنے کم اجرت پانے والے ورکروں کو تنخواہیں دینے سے انکار کیا۔ Curefit نامی ایک کمپنی نے اپنے رقمی خزانہ سے 5 کروڑ روپے پی ایم کیرس فنڈ میں دینے کے بعد اپنے ایک ہزار ملازمین کی خدمات ختم کردی۔
آخر یہ تمام رقم کہاں گئی؟ یہ ایسا سوال ہے جس کا جواب دینا ناممکن ہے کیونکہ PM CARES کی ساخت ایک خانگی ٹرسٹ کی طرح بنائی گئی ہے ایسے میں ریاستی آڈیٹر اس کا جائزہ نہیں لے سکتا۔
پی ایم کیر فنڈ کی تشہیر غیر معمولی انداز میں کی گئی جبکہ بیرونی ممالک میں مودی کے ہم منصب کورونا بحران کے نتیجہ میں خوف و دہشت اور فکرمندی و تشویش میں مبتلا اپنے عوام سے اپیلیں کررہے تھے۔ مودی نے ایک صدی کے اس بدترین صحت سے متعلق بحران کو بھی ایک موقع کی طرح استعمال کیا اور جمہوری دنیا میں بڑی دلیری کے ساتھ اپنے اقدامات جاری رکھے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی ہمیشہ یہ کہتے ہیں کہ وہ خود غربت میں پلے بڑھے ہیں۔ ایسے میں ان سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ بعض دوسرے دولت مندوں کی طرح غریبوں سے نفرت کریں گے لیکن پچھلے بجٹ پر ہی غور کریں جس میں غریب کے اس بچے کے لئے 5500 کروڑ روپے صرف دو بوئنگ طیارے خریدنے کے لئے مختص کئے گئے مودی کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ اپنی شخصیت کو ابھارنے کی کوشش کی اور یہ کوشش راست یا بالواسطہ کی گئی۔ اگر مودی بوئنگ جیسے پراجکٹس کی رقومات غریب مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لئے مختص کردیتے تو بہتر ہوتا ۔ پچھلے برسوں کے دوران ہندوستان میں جو کچھ ہوا ملک کی جو درگت بنائی گئی ہر طریقہ سے ہندوستان کو تباہ کیا گیا۔ وہ سب جانتے ہیں اب تو اس ملک کو مضبوط و مستحکم بنانے کے آئیڈیا پر سنجیدگی سے کام کیا جانا چاہئے۔