کورونا ‘ مسلمانوں کو ہراسانی ‘ امریکی تشویش

   

پامال کرکے دل کو نہ دیکھا کبھی ادھر
تم سے تو خیر اتنی بھی زحمت نہ ہوسکی
کورونا ‘ مسلمانوں کو ہراسانی ‘ امریکی تشویش
کورونا وائرس نے ساری دنیا میں ایک طرح سے قیامت صغری برپا کی ہوئی ہے۔ لاکھوں افراد اس سے متاثر ہوچکے ہیں اور لاکھوں افراد کی اس وائرس کی وجہ سے موت بھی واقع ہوچکی ہے ۔ چین سے پیدا ہوئے اس وائرس نے ہندوستان کو بھی نہیں بخشا ہے اور یہاں بھی متاثرین کی تعداد 80 ہزار سے پار ہوچکی ہے ۔ جب یہ وائرس ہندوستان میں بتدریج زور پکڑ رہا تھا گودی میڈیا اور زر خرید ٹی وی اینکروں نے اس کیلئے حسب روایت زہر اگلنا شروع کیا اور مسلمانوںکو اس کا ذمہ دار قرار دینے کی کوشش کی ۔ اس کیلئے دہلی میں تبلیغی جماعت کے اجتماع کو بہانہ بنایا گیا ۔ گودی میڈیا اور زر خرید ٹی وی اینکروں کی اسی کوشش کا نتیجہ ہے کہ آج سارے ہندوستان میںمسلمانوں کو نشانہ بنانے کا سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ مسلمانوں کے سماجی اور معاشی مقاطعہ کی باضابطہ مہم شروع کردی گئی ہے ۔ ساری دنیا میں اس بات کا نوٹ لیا جا رہا ہے اور افسوس اس بات کا ہے کہ خود ہندوستان میں اس کا کوئی نوٹ نہیں لیا جا رہا ہے ۔ اب امریکہ نے بھی ہندوستان میں کورونا وائرس پر مسلمانوں کو نشانہ بنانے پر تشویش کا اظہار کیا ہے ۔ امریکی نمائندے برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی سام براون بیک نے ایک پریس کانفرنس میں کہا کہ حالانکہ وزیر اعظم نریندر مودی زبانی طور پر ملک میں اتحاد کی بات کرتے ہیں لیکن مختلف گوشوں سے مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور انہیں ہراساں کرنے کا ایک سلسلہ سا شروع ہوچکا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ساری اقلیتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور سب سے زیادہ مسلمان نشانہ پر ہیں۔ سام براون بیک نے اس سلسلہ میں فرضی خبروں کا مسئلہ بھی اٹھایا اور کہا کہ سوشیل میڈیا پر فرضی خبروں کے ذریعہ گمراہ کن پروپگنڈہ کیا جا رہا ہے ۔ واضح رہے کہ اس سے قبل امریکی انٹرنیشنل کمیشن برائے مذہبی آزادی نے بھی ہندوستان میں کورونا کی وجہ سے مسلمانوں کو نشانہ بنائے جانے پر تشویش ظاہر کی تھی ۔ یہاں تک کہا گیا تھا کہ ہندوستان کو اس معاملے میں بلیک لسٹ بھی کیا جاسکتا ہے ۔ امریکی کمیشن کے بعد اب امریکی نمائندہ برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی نے بھی اسی طرح کا بیان جاری کیا ہے ۔
یہ بات بھی نوٹ کرنے کے قابل ہے کہ خلیجی ممالک میں بھی ہندوستان میں اسلاموفوبیا کے واقعات کے تعلق سے رائے عامہ ہموار ہونے لگی تھی ۔ متحدہ عرب امارات کی ایک شہزادی نے بھی اس مسئلہ پر اپنے رد عمل کا اظہار کیا تھا ۔ خلیج میں کچھ ممالک میں اسلام کے خلاف زہر افشانی کے نتیجہ میں کچھ جنون پسندوں کو اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا تھا ۔ اسی طرح کنیڈا میں بھی گذشتہ دنوں اسی طرح کی ایک کارروائی میں ایک شخص اپنی نوکری سے محروم ہوگیا تھا ۔ یہ واقعات حالانکہ بالکل معمولی اور ابتدائی نوعیت کے ہیں لیکن ان کا اندرون ملک نوٹ لیا جانا ضروری ہے ۔ جہاں تک امریکہ کا سوال ہے حالیہ عرصہ میں ایک سے زائد موقعو ں پر امریکہ نے ہندوستان میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور ہراسانیوں کا نوٹ لیا ہے اور انہیں ختم کرنے کی ضرورت پر بھی زور دیا ہے ۔ امریکی تشویش کے بعد دوسرے ممالک میں بھی اس طرح کے واقعات کا نوٹ لیا جانے لگا ہے اور ساری دنیا میں ہندوستان کی جو مذہبی رواداری کی شبیہہ تھی وہ متاثر ہورہی ہے ۔کئی مقامات پر اس سلسلہ میں بے چینی کا اظہار کیا جا رہا ہے لیکن اندرون ملک اس طرح کے واقعات کی عملا حوصلہ افزائی ہی ہو رہی ہے ۔ اس طرح کے عناصر کے خلاف کارروائی کرنے کی بجائے ان کی راست یا بالواسطہ طور پر حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور کسی طرح کی کارروائی سے گریز کیا جا رہا ہے ۔
مسلمانوںکو نشانہ بنانے کیلئے جس طرح امریکہ نے نوٹ لیا ہے فرضی خبروں کا بھی خاص طور پر سہارا لیا جا رہا ہے ۔ خود اترپردیش میں آدتیہ ناتھ کی حکومت نے کئی فرضی خبروں کا بھانڈا پھوڑا تھا ۔ فرضی خبروں کی تردید کی گئی تھی لیکن فرضی خبریں پھیلانے اور سوشیل میڈیا کا غلط اور بیجا استعمال کرنے والوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ ایسا کرنے والوں کے حوصلے بلند ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ اپنی کارستانیوں کو روکنے کی بجائے ان میں اضافہ ہی کرتے جا رہے ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہر افشانی کے سلسلہ کو روکاجائے ۔ فرضی خبروں کا جو طوفان پیدا کیا جا رہا ہے ان پر قابو پایا جائے اور دنیا بھر میں ہندوستان کی مذہبی رواداری کی جو شبیہہ متاثر ہو رہی ہے اس کو متاثر ہونے سے بچایا جائے اور اس کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔