کورونا وائرس اور ڈبلیو ایچ او

   

عالمی صحت تنظیم
(WHO)
آیا چین کے ہاتھوں کٹھ پتلی ہے ؟ یہ سوال بار بار اُٹھ رہا ہے ۔ کورونا وائرس کے بارے میں اہم معلومات پوشیدہ رکھنے کے الزامات عائد کرتے ہوئے صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے چین کو مسلسل نشانہ بنایا ہے ۔ کورونا وائرس کے خطرات بڑھتے جارہے ہیں ۔ اس مہلک وبا سے نمٹنے میں عالمی ادارہ صحت کی لاپرواہی اور تساہلی سے آج صورتحال اس قدر سنگین ہوگئی ہے کہ ساری دنیا میں 3 لاکھ سے زائد اموات اور لاکھوں افراد متاثر ہوئے ہیں ۔ صرف امریکہ میں ہی 15لاکھ افراد متاثر اور 90 ہزار سے زائد اموات ہوئی ہیں ۔ امریکہ میں کورونا وباء کی دہشت نے اس سوپر پاور ملک کی حالت ابتر کردی ہے ۔ اس نازک صحت عامہ کے مسئلہ پر عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او نے پیشگی معلومات کی فراہمی میں کوتاہی کو تسلیم کیا ہے اور وبائی مرض کے تعلق سے اپنے ردعمل کا آزادانہ جائزہ لینے کی یقین دہائی بھی کرائی ۔ اس مسئلہ پر عالمی ادارہ کے رکن ممالک نے کورونا کیس کے سلسلہ میں آزادانہ تحقیقات کروائی جانے سے اتفاق کیا ہے تو بڑے پیمانہ پر دنیا بھر میں انسانی جانوں کے ضیاع کے لیے ذمہ دار ملک کو عالمی قانون کے مطابق کیا سزا ہونی چاہئے اس پر یہی عالمی ادارہ کو فیصلہ کرنا ہوگا ۔ یہ ایک ایسی خاموش جنگ ہے جس نے تمام ملکوں کو انسانی جانوں کے خطرات میں اضافہ اور معیشت کو تباہ کردیا ہے ۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ روز اول سے ہی ڈبلیو ایچ او کے خلاف اپنی سخت رائے کا اظہار کرتے آرہے ہیں ۔ اس مرتبہ بھی انہوں نے وارننگ دی ہے کہ آئندہ 30 دن میں اگر کوئی بڑے اصلاح کا قدم نہیں اٹھایا گیا تو امریکہ کی جانب سے اس کی فنڈنگ روک دی جائے گی ۔ یہ دھمکی بظاہر ایک وقتی برہمی کا اظہار ہے کیوں کہ عالمی ادارہ صحت سے جو کوتاہی ہوئی ہے اس کا راست اثر انسانی جانوں پر ہوا ہے ۔ اب جب کہ ساری دنیا کے ممالک اس مہلک وباء سے متاثر ہوئے ہیں تو ان تمام کے لیے واحد نشانہ کورونا وائرس کے خاتمہ اور اس سے بچاؤ کی تدابیر تلاش کرنا ہے ۔ دنیا میں جنگ ہو یا مہلک وبائی امراض ہوں ان کا راست اثر دنیا بھر کے انسانی جانوں کو ہوتا ہے ۔ ان میں غریب افراد سب سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں ۔

امریکہ جیسے وسائل والا ملک اس وقت بے بس ہے ۔ روزگار کی شرح گھٹ چکی ہے ۔ اٹلی نے ابتدائی طور پر جو اموات دیکھی ہیں اور اس نے جو سبق سیکھا ہے وہ اس کے لیے آنے والے دنوں میں ایک اہم تجربہ کی حیثیت رکھے گا ۔ اٹلی کے بعد اسپین ، فرانس اور ایران بھی سب سے زیادہ متاثر رہے ہیں لیکن اب یہاں حالات معمول پر آرہے ہیں ۔ جب چین میں بیماری شروع ہوئی تو اس ملک نے اس بیماری کو پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی ، نتیجہ میں چین سے امریکہ جانے والی فلائٹس سے 70 ہزار سے زائد چینی امریکہ آئے اور گئے جب کہ امریکی حکام اس وائرس کے خطرات سے بے خبر تھے ۔ انہوں نے کسی بھی قسم کی احتیاطی تدابیر اختیار نہیں کی ۔ صدر ٹرمپ نے بھی ابتداء میں اس وائرس کو اہمیت نہیں دی ۔ اب اس وائرس نے حکمرانوں کی راتوں کی نیند حرام کردی ہے ۔ اب تک ساری دنیا میں انسانوں کی اموات کی جو تعداد سامنے آئی ہے وہ تشویشناک ہے لیکن ماہرین نے اموات میں بے تحاشہ اضافہ کا اندیشہ ظاہر کیا تھا لیکن عوام نے احتیاط کرتے ہوئے لاک ڈاؤن پر سختی سے عمل کیا تو اموات کی رفتار گھٹنے لگی ۔ کورونا وائرس کی سنگینیوں کا پتہ چلنے کے بعد اب عالمی ادارہ پر ساری دنیا کی نظریں لگی ہیں اور عالمی طاقتوں کو مزید موثر اقدامات کرنے پر غور کرتے ہوئے سال 2021 کے لیے لائحہ عمل کو قطعیت دیتے ہوئے وباء پر قابو پانے اور دوا کی تیاری کے ساتھ ساتھ عالمی معیشت کو سنبھالنے والے اقدامات کرنے کی ضرورت ہوگی ۔ جینوا میں عالمی صحت تنظیم کی سالانہ میٹنگ میں وباء کے تعلق سے عالمی آزادانہ تحقیقات کی ضرورت پر زور دیا گیا ہے ۔ رکن ممالک کو اس مسئلہ پر اپنی سیاست کرنے سے بھی گریز کرنا
ضروری ہوگا۔