کورونا وائرس سے زیادہ فرقہ پرستی کا وائرس خطرناک

   

تلنگانہ / اے پی ڈائری خیر اللہ بیگ
تلنگانہ میں بھی کورونا وائرس سے ہلچل پیدا ہوگئی ہے ۔ یہاں کے عوام ابھی سی اے اے اور این پی آر یا این سی آر کی دہشت سے باہر نکلے ہی نہیں تھے کہ وائرس کا سہارا لے کر کچھ نیا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ۔ ہندوستان میں وائرس نے ایک ایسے وقت انٹری لی ہے جب مودی حکومت بدنامی کے آخری دہانے پر پہونچ رہی تھی ۔ حکمراں پارٹی کی اشتعال انگیزی اور اس کے قائدین کی غنڈہ گردی کو ساری دنیا دیکھ کر حیران تھی کہ کورونا وائرس نے اس حیرت کا رخ موڑ دیا اب تلنگانہ سے لے کر دہلی تک وائرس سے خوف زدہ لوگ ماسک خریدنے اور احتیاطی اقدام کرنے میں مصروف ہیں ۔ عوام صرف ایک وائرس سے اس قدر پریشان ہیں کہ وہ اصل حکمراں پارٹی کے فسطائیت والے وائرس کو بھول گئے ہیں ۔ یہ حکومت اور اس کی سیاسی چمچہ گیر پارٹیاں دستور کے ساتھ وہ سلوک کررہی ہیں جیسے اس کا وجود ہی نہ ہو ۔ دراصل جمہوریت کو ہی مٹانے کا عمل شروع ہوگیا ہے ۔ ہندوستانی جمہوریت کو فسطائیت کا کورونا وائرس چمٹ گیا ہے ۔ کوئی بھی ریاست اور کوئی بھی ملک حکمراں پارٹی کی جانب سے لگائے گئے فسطائیت کے وائرس سے نکالنے کے لیے مدد کو نہیں آرہا ہے ؟ سب اپنے منہ پر حفاظتی ماسک لگا کر محفوظ فاصلے پر کھڑے شیشے کے پیچھے سے مریض کو دیکھ رہے ہیں اور ملک میں فرقہ پرستی کے وائرس کے ذریعہ صرف مسلمانوں کو تباہ کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے ۔ مسلمانوں کے لیے ایسی مجبوری اور بے چارگی اور تنہائی تو کبھی نہ تھی ۔ دہلی کے مسلمان اپنے نام تبدیل کر کے اور حلیہ بدل کر باہر نکل رہے ہیں ۔ حکومتیں اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے کچھ بھی کرسکتی ہیں ۔ آج کا دور جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی مثال کو سچ ثابت کردیا ہے ۔ یہ نہایت ہی دکھ کی بات ہے کہ خراب کو اچھا اور اچھے کو خراب ثابت کر کے حکمراں طاقتیں اپنے ووٹرس کو گمراہ کررہے ہیں اور اس ملک کا نقصان کررہے ہیں ۔ مرکز سے لے کر ریاستوں تک ہر حکمراں پارٹی اپنے مفادات کے لیے عوام کی بھینٹ چڑھا رہی ہیں ۔ چاہے وہ سیاسی معاملہ ہو یا تجارتی یا مذہبی امور کا جھگڑا ہر معاملہ میں حکمراں پارٹیاں اپنے اختیارات کا بیجا استعمال کررہی ہیں ۔ کورونا وائرس سے ساری دنیا پریشان ہے ۔ لوگ مشورہ دے رہے ہیں کہ کورونا وائرس سے بچنے کے لیے چکن کا استعمال نہ کریں ۔ چکن کی تیاری میں چین نے ناپاک جانوروں کے ڈی این اے کا استعمال کیا ہے ۔ یہ چکن تیزی سے بڑے ہو کر گوشت بن جاتے ہیں۔ ان کے کھانے سے طرح طرح کی بیماریاں ہورہی ہیں اس مشورہ کو غلط قرار دیتے ہوئے حکمراں پارٹی کے قائدین چکن کھانے کی ترغیب دے رہے ہیں کیوں کہ اس کاروبار میں وہ خود یا ان کے قریبی لوگ شامل ہوتے ہیں ۔ حال ہی میں تلنگانہ کے وزیر بلدی نظم و نسق کے ٹی راما راؤ کو چکن کھاتے ہوئے دیکھا گیا ۔ انہوں نے چکن کو کھانے کا بھی مشورہ دیا ۔ یہ خوف دور کرنے کی کوشش کی گئی کہ جانوروں کے گوشت سے کورونا وائرس کا انفکشن ہوتا ہے ۔ حیدرآباد میں ٹی آر ایس حکومت کے کئی وزراء اور قائدین کو چکن کی ٹانگ مزے لے کر کھاتے ہوئے دیکھا گیا ہے ۔ ایک ہاتھ میں چکن لگ دوسرے ہاتھ میں پیپر پلیٹ لے کر کے ٹی راما راؤ چکن کی ٹانگ اپنے منہ میں رکھ کر فوٹو کھینچا رہے ہیں ۔ یہ تقریب چکن اور انڈے کھانے سے کورونا وائرس پھیلنے کے اندیشوں کو دور کرنے کے مقصد سے منعقد کی گئی تھی ۔ سرکاری سرپرستی میں جب کوئی عوام کو وائرس کا خیر مقدم کرنے اور گلے لگانے کی ترغیب دیتا ہے تو عوام بھی اندھی تقلید میں دوڑ نکلتے ہیں ۔ کورونا وائرس سے تنفس کا نظام بگڑ جاتا ہے ۔ اس کا چک اپ از خود شخص کرسکتا ہے ہر روز بستر سے اٹھتے ہی گہری سانس لے کر کچھ سکنڈ کے بعد چھوڑنے کا عمل 3 ، چار بار کرے تو اس سے اندازہ ہوگا کہ وہ کورونا وائرس سے متاثر ہے یا محفوظ ہے ۔ کیوں کہ گہری سانس لینے کے بعد پھیپھڑوں پر اثر پڑے گا ۔ اگر پھیپھڑے کمزور ہیں تو کھانسی آئے گی اور سر چکرا جائے گا اور اگر پھیپھڑے طاقتور ہیں تو کچھ نہیں ہوگا ۔ لوگوں کو اس طرح کی باتوں سے باخبر رکھنے کے بجائے حکومت کے ذمہ دار چکن کھانے اور انڈے استعمال کرنے کی ترغیب دینے لگے ہیں ۔ حیدرآباد میں کورونا وائرس سے متاثرہ دو افراد کے معائینے کروائے گئے ہیں ۔ عالمی تنظیم صحت نے پہلے ہی کہہ دیا ہے کہ یہ وائرس ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے گا لیکن دنیا بھر کے ملکوں نے احتیاطی تدابیر نہیں کئے ۔ چین کے بعد یہ وائرس دنیا کے 27 ملکوں میں پھیل چکا ہے ۔ تلنگانہ میں لوگ اس وائرس سے خوف زدہ تو نہیں ہیں لیکن جس طرح کی افواہیں گشت کی جارہی ہیں اس سے کام کاج پر اثر پررہا ہے ۔ حکومت تلنگانہ نے عوام سے کہا ہے کہ وہ وائرس کے ڈر سے اپنے کام کاج بند نہ کریں ۔ خاص کر آئی ٹی کمپنیوں سے کہا گیا ہے کہ وائرس کا اثر زیادہ نہیں ہے ایک یا دو مریضوں کا ٹسٹ پازیٹیو نکلا ہے ۔ ہائی ٹیک سٹی میں ماینڈ اسپیس آئی ٹی پارک میں آئی ٹی کمپنیوں کے ملازمین کو آفس سے گھر چلے جانے کی اجازت دیدی گئی اور سارا آئی ٹی علاقہ خالی کردیا گیا ۔ اب یہ آئی ٹی انجینئرس ورک فرام ہوم کریں گے ۔ آئی ٹی شعبہ میں 4.5 لاکھ افراد کام کرتے ہیں ان میں سے اب تک صرف ایک انجینئر کو کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے ۔ اس ایک مریض کے لیے تمام 4.50 لاکھ ملازمین کو پریشان کرنا مناسب نہیں ہے لیکن حکومت کو یہ بھی غور کرنا ضروری ہے کہ عوام کا ہجوم جہاں ہوتا ہے وہاں وائرس کے پھیلنے کا بھی اندیشہ پایا جاتا ہے ۔ اگر آئی ٹی کمپنیوں نے احتیاطاً کچھ دنوں کے لیے اپنے ملازمین کو گھر سے کام کرنے کی اجازت دی ہے تو ان ایام میں احتیاطی دواؤں کا چھڑکاؤ اور فضائی آلودگی کو صاف کرنے پر توجہ دینی چاہئے ۔ آئی ٹی کا سارا علاقہ ان دنوں دھول آلودہ ہے ۔ ہر جگہ تعمیراتی کاموں کی تیزی سے انجام دہی نے اس علاقہ کو دھول مٹی اور کچرے میں لت پت کردیا ہے ۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ آئی ٹی شعبہ کے سارے علاقہ کے ساتھ ساتھ تمام شہروں کو صاف ستھرا رکھ کر دھول پیدا ہونے کے کاموں کو روک دینا چاہئے یا پانی کا چھڑکاؤ کرتے ہوئے کام کرنے کی ضرورت ہے تاکہ دھول نہ اٹھے اور جراثم پیدا ہونے والی جگہوں میں جراثیم کش ادویات کا چھڑکاؤ کیا جائے ۔ شہر میں موریوں کا پانی اُبل کر سڑکوں پر مہینوں بہتا رہتا ہے ۔ بلدی حکام اس جانب توجہ نہیں دیتے ۔ شہر کا ہر محلہ اور ہر سڑک پر کہیں نہ کہیں ڈرینج کا پانی اُبل کر بہتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے ۔ حکومت خاص کر متعلقہ وزیر کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے محکموں کے لوگوں کو سختی سے پابند کر کے صفائی کا خاص خیال رکھنے پر زور دیں ۔۔