!کورونا کیساتھ رہنا سیکھو

   

موت سے لڑ کر جینا سیکھو ، زندگی سے مل کے چلنا سیکھو
صحت ہے سب کو پیاری لیکن کورونا کے سایے میں رہنے سیکھو
!کورونا کیساتھ رہنا سیکھو
مرکزی حکومت نے کورونا وائرس کے ساتھ جینا اور رہنا سیکھنے کا عوام کو مشورہ دیتے ہوئے اس وبا پر قابو پانے میں اپنی ناکامی کا اشارہ دیدیا ہے ۔ 50 دن سے لاک ڈاؤن کی مشکلات میں جھونک کر اب عوام سے کہا جارہا ہے کہ وہ کورونا وائرس کے ساتھ رہنا سیکھیں ۔ ملک بھر میں کورونا وائرس کے کیسوں میں دن بہ دن اضافہ ہورہا ہے ۔ عوام کو سماجی دوری کی بندش میں رکھنے کے باوجود وائرس پھیل رہا ہے تو پھر حکومت ہر محاذ پر بے بس دکھائی دیتی ہے ۔ حکومت لاک ڈاؤن میں نرمی لانے پر غور کرنے کے ساتھ اپنے وطن واپس ہونے والے میگرنٹس کو روکنے کے لیے بھی مرکزی حکومت نے لاک ڈاؤن میں نرمی کا جائزہ لیا ہے تو اس سے مسائل کم ہوں گے یا خطرات میں اضافہ ہوگا یہ کہا نہیں جاسکتا ۔ حکومت کو اصل میں اپنی سرکاری مشنری کی کارکردگی اور احتیاطی اقدامات کے نتائج صفر آنے پر فکر لاحق ہوگئی ہے ۔ عوام کی زندگیاں بچانے کی کوشش میں اس حکومت نے مزدوروں اور غریبوں کی زندگیوں کو داؤ پر لگادیا ہے ۔ میگرنٹس کی حالات تباہ کن ہے یہ لوگ ہر جگہ مسائل و مشکلات کا شکار ہیں کہیں ریل کے کچلنے پر اموات ہورہی ہیں تو کہیں پیدل چلتے چلتے لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھ رہے ہیں ۔ اورنگ آباد میں ٹرین کے نیچے کچلے جانے پر 16 غریب میگرنٹس ہلاک ہوگئے ۔ اس سانحہ کے بعد حکومت کی سطح پر ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ متعلقہ وزارت کے ذمہ دار اپنا استعفیٰ دیتے لیکن اس حکومت کے ہر ذمہ دار وزیر کے پاس اخلاق کی نام کی چیز ہی نہیں ہے ۔ اگر حکومت کا ہر فرد اخلاق کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتا تو سب سے پہلے موجودہ وزیر داخلہ کو مستعفی ہونا چاہئے تھا کیوں کہ لاک ڈاؤن کے دوران کئی ایسے واقعات بھی ہیں جو ایک ذمہ دار حکومت کے لیے باعث شرم ہیں ۔ کورونا وائرس کے ساتھ جینے کا ہنر سیکھنے کا مشورہ دینے والی یہ حکومت آگے چل کر عوام کے لیے کیا کیا مشورے لائے گی یہ وقت ہی بتائے گا ۔ عوام کو اس مشورہ کے بعد یہ اندازہ کرلینا چاہئے کہ اب ان کی مدد کرنے کے لیے حکومت نہیں ہوگی بلکہ عوام کو خود اپنی مدد آپ کرنی ہوگی اور وباء کے ساتھ جینے یا وباء کو گلے لگا کر زندہ رہنے کی خود کوشش کرنی ہوگی ۔ اس مشورہ کے بعد عوام کو اب حکومت سے یہ مطالبہ کرنے کا بھی حق نہیں رہ جاتا کہ وہ ملک میں پھیلی ہوئی گندگی اور غیر قانونی یا قواعد و ضوابط کے بغیر قائم صنعتوں کو بند کریں ۔ فیکٹریوں سے زہریلی گیاس نکلتی ہے اور بے قصور معصوم انسان مرتے ہیں تو مریں ، حکومت کو اس بارے میں پوچھنے کا عوام کو حق نہیں ہے ۔ عوام اب بھی سوال نہیں کرسکتے کہ ان کے محلوں میں آوارہ کتوں کی کثرت ، مچھر اور مکھیوں کی کثرت ، گندگی ، ٹوٹے مین ہولس ، کچی نالیوں کی مرمت کا انتظام کرے تاکہ آئندہ آنے والی کسی اور وباء سے تحفظ کیا جاسکے ۔ وباء کے ساتھ جینے کا مشورہ دینے والی حکومت سے اب یہ توقع نہیں رکھی جانی چاہئے کہ وہ صحت عامہ کے لیے منصوبہ بندی کرے گی ۔ اس وقت جو شریف لوگ حکومت کے مشورہ پر گھروں میں بند ہیں اپنے گھروں میں صفائی اور دیگر امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں ۔ گلی کوچوں میں اگر گندگی ہے تو صاف کرلیں ۔ اس حکومت کو شاید اندازہ ہوگیا ہے کہ ہندوستان کے عوام حکمراں کی ہدایت پر عمل کرنے کو اپنا فرض سمجھتے ہیں کیوں کہ جب ان کے حکمراں نے کہا کہ آپ لوگ تالی بجاؤ ، تھالی بجاؤ تو عوام نے بجایا اور بالکونی اور گھروں کے سامنے دیپ جلاؤ ، موم بتی جلاؤ کی ہدایت دی تو اس پر بھی خوشی سے عمل کیا ، اُف تک نہ کیا ، پھر حکومت کے لیے آسانیاں پیدا ہوگئی ہیں ۔ اب اس سے کورونا وائرس کے ساتھ رہنے کی بات کہہ رہی ہے ۔ اگر حکومت یہی بات روز اول ہی کہہ دیتی تو 50 یا 60 دن کا لاک ڈاؤن اور کھربوں روپئے کی معیشت کو تباہی سے بچایا جاسکتا تھا ۔ انسانوں کی زندگیاں ضائع ہوتی ہیں حکمراں کو اس سے کوئی مطلب نہیں ہوتا ۔ عوام اس قدر تابعدار ہے کہ وہ اپنے حکمراں کی ہر بات پر عمل کرتے ہیں ۔ ایسے میں ملک میں اپوزیشن پارٹیوں کا وجود صفر حیثیت اختیار کررہا ہے ۔ کانگریس لیڈر راہول گاندھی بھی حکومت کو مشورہ دیتے ہوئے اپنی ذمہ داری پوری کرنے کا مظاہرہ کررہے ہیں ۔ اس ملک کی موجودہ تاریخ کا ایک ایک پہلو آنے والے دنوں میں مذاق کا موضوع بھی بن سکتا ہے۔ اس لاک ڈاؤن کے گناہ کی ذمہ داری کس طبقہ پر ڈالی جائے گی یہ وقت ہی بتائے گا ۔۔
ملک میں 4 بڑے حادثے
المناک حادثوں کی خبروں نے کورونا سے پریشان عوام کو مضطرب کررہا ہے ۔ ملک میں گذشتہ 24 گھنٹوں میں 4 بڑے حادثہ ہوئے ہیں ۔ وشاکھا پٹنم میں ایک کوریائی کیمیکل فیکٹری میں گیاس کے اخراج سے 11 افراد کی موت 1000 سے زائد متاثر ہوئے ۔ مہاراشٹرا کے ضلع ناسک میں فیکٹری میں آگ لگ گئی ۔ چھتیس گڑھ کے رائے گڑھ اور ٹاملناڈو کے نیوپلی میں بھی حادثے ہوئے ہیں ۔ مہاراشٹرا میں ٹرین حادثہ میں 17 مزدور کی موت واقع ہوئی ۔ اورنگ آباد ریلوے حادثہ کے لیے حکومت کو ذمہ دار ٹھہرایا جارہا ہے ۔ ایک فون کال کیا جاتا تو ٹرین کے نیچے کچل کر 17 مزدوروں کی جان بچائی جاسکتی تھی ۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے اس حادثہ پر وزیر ریلوے پیوش گوئل سے بات تو کی لیکن حادثہ کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی کوئی ہدایت نہیں دی ۔ سماج پر پہلے ہی سے کئی درد ناک واقعات مسلط ہورہے ہیں ۔ حکومت اپنی خرابیوں کے ذریعہ دیہی مزدوروں اور غریبوں کو روزانہ موت کی نیند سلانے والے واقعات سے دوچار کررہی ہے ۔ اورنگ آباد ٹرین حادثہ مرکز اور ریاستی حکومت کے متعلقہ عہدیداروں کی لاپرواہی کا نتیجہ ہے ۔ ریلوے پٹریوں پر بھوکے پیاسے مزدور سو رہے تھے اور یہ لوگ ٹرین کے چلنے سے متعلق بے خبر تھے ۔ یہ کوئی ایک حادثہ نہیں ہے بلکہ سراسر لاپرواہی کا نتیجہ ہے ۔ سارا ملک مہلک مرض کورونا وائرس سے پریشان ہے تو دیہی مزدور حکومت کی زیادتیوں کا شکار بن کر بیروزگار ہوئے ہیں اب اپنی جانوں سے بھی جارہے ہیں ۔ حکومت اپنے لاکھ وعدوں کے باوجود ان میگرنٹس ورکرس کو غذا کے ساتھ اسرا فراہم کرنے میں ناکام ہے ۔ مرکزی اور ریاستی حکومتیں ہر روز بلیٹن جاری کر کے شہری علاقوں میں عوام کو اپنے گھروں میں رہنے کا مشورہ دیتی ہے اور ان کے لیے غذا کے ساتھ دیگر ضروری اشیاء کی خریداری کی سہولت فراہم کررہی ہے ۔ مگر میگرنٹس کے لیے حکومت کے پاس کوئی ہمدردی نہیں ہے ۔ نتیجہ میں آج لاکھوں اور کروڑہا مزدور اپنی جان جوکھم میں ڈال کر سڑکوں پر نکل پڑے ہیں ۔ یہ ایک المیہ سے کم نہیں ہے ۔۔