کورونا کے ایک لاکھ کیس

   

زمانہ اس کو ہی جھک کر سلام کرتا ہے
روش زمانے کی جو کرکے اختیار چلے
کورونا کے ایک لاکھ کیس
ہندوستان میں گذشتہ دو ماہ کے لاک ڈاؤن اور 130 کروڑ عوام کو گھر میں بند رکھنے کے بعد بھی کورونا وائرس کے کیسوں میں بتدریج اضافہ اور ایک لاکھ سے تجاوز کردینے والی خبر تشویشناک ہے ۔ صرف دو دن کے دوران ہی کورونا کیسوں میں تقریباً 11 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ۔ آنے والے 8 دنوں میں یہ تعداد دیڑھ لاکھ ہوجائے گی۔ دیگر ممالک کے مقابل ہندوستان میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد اور اموات کی تعداد میں جس طرح کا اضافہ ہورہا ہے یہ حکومت کے لیے توجہ طلب ہے۔ مرکز کی بی جے پی زیر قیادت مودی حکومت نے کئی اقدامات کرنے کے دعوؤں کے ساتھ عوام پر لاک ڈاؤن کا سخت ترین عمل مسلط کردیا تھا ۔ اس لاک ڈاؤن کے کوئی مثبت نتائج سامنے نہیں آئے بلکہ معاشی تباہی اور غریبوں اور مزدوروں کی ابتر حالت نے دیگر مسائل پیدا کردئیے ۔ لاک ڈاؤن کو کورونا وائرس کے خاتمہ کے لیے ناگزیر سمجھ کر ہی حکومت نے عالمی صحت تنظیم WHO کے رہنمایانہ خطوط پر عمل کیا لیکن اس کے ساتھ ٹسٹنگ کا عمل موثر طور پر نہیں کیا گیا ۔ نتیجہ میں کورونا وائرس سے متاثرہ افراد کی تعداد دن بہ دن اضافہ ہونے کی مہاراشٹرا سب سے زیادہ متاثرہ ریاست ہے ۔ یہاں کے معاشی دارالحکومت ممبئی میں کورونا کے کیسوں میں اضافہ کو دیکھ کر بھی وزارت صحت نے ہنگامی اقدامات نہیں کئے ۔ ٹاملناڈو دوسری ریاست ہے جہاں کورونا کے سب سے زیادہ کیس پائے گئے ہیں ۔ گذشتہ 10 دنوں میں بہار ، مہاراشٹرا ، مدھیہ پردیش اور گجرات میں کورونا کے کیسوں میں اضافہ ہونا فکر کی بات ہے ۔ گجرات میں تمام تر احتیاطی اقدامات کے باوجود کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے ۔ کورونا کیسوں میں اضافہ کی اصل وجہ حکومت کی لاپرواہی بتائی جارہی ہے ۔ فروری میں ہی یہ وائرس ہندوستان میں پھیل چکا تھا لیکن مودی حکومت اپنے ذاتی مشغولیات میں مصروف تھی ۔ صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ کے دورہ کے انتظامات میں مصروف مودی حکومت نے 130 کروڑ ہندوستانیوں کو کورونا وائرس کے خطرے سے بچانے میں لاپرواہی کی ۔ یہ بھی الزام ہے کہ مودی حکومت نے فروری میں مدھیہ پردیش کی کانگریس حکومت کو گرانے میں بھی مصروف تھی ۔ اس دوران کورونا وائرس سے متاثرہ افراد بیرونی ملکوں سے ہندوستان میں فضائی راستے داخل ہوئے ۔ ایرپورٹس پر اسکریننگ کے مناسب انتظامات نہیں کئے گئے اور نہ ہی کن کن ملکوں سے کون کون سا مسافر کورونا وائرس سے متاثر ہے اس کی بھی جانچ نہیں کی گئی ۔ جب یہ وائرس اپنی شدت اختیار کرنے لگا تو مودی حکومت نے 20 مارچ کے بعد ہی بیدار ہو کر جنتا کرفیو اور اس کے بعد لاک ڈاؤن کے اچانک فیصلے کردئیے ۔ گذشتہ 60 دن سے سارا ملک لاک ڈاؤن سے گذر رہا ہے ۔ 31 مئی تک جاری رہنے والا یہ لاک ڈاؤن دنیا کا سب سے طویل ترین لاک ڈاؤن قرار دیا جارہا ہے ۔ ان تمام اقدامات کے باوجود مرکزی حکومت نے ٹسٹنگ کے عمل میں تیزی نہیں لائی ہے ۔ لاک ڈاؤن سے بلا شبہ کیسوں میں بے تحاشہ اضافہ کو روکا جاسکا لیکن مریضوں کی بڑھتی تعداد کو روکنے کے لیے حکام کے پاس خاطر خواہ وقت ہی نہیں تھا کیوں کہ ابتدائی طور پر جس طرح کی لاپرواہی کی گئی اس کے نتیجہ میں یہ وائرس ملک بھر میں پھیل گیا ۔ اس دوران حکومت کے چند نمائندے اور حکومت کے اشاروں پر کام کرنے والے ٹی وی چیانلوں اور میڈیا نے مہلک وباء کورونا کو مسلمانوں تبلیغی جماعت سے جوڑنے کی کوشش کرتے ہوئے سارا زور اس پر صرف کردیا کہ یہ وائرس تبلیغیوں سے پھیلا ہے ۔ وائرس روکنے پر دھیان کم دیا گیا ۔ جھوٹے پروپگنڈہ پر زیادہ تر زور دیا گیا ۔ یہ تو عوام ہی ہیں جن کے اندر اس عالمی وباء کے بارے میں آگہی بڑھی ہے عوام نے حکومت اور اس کے میڈیا کے جھوٹے پروپگنڈہ کو مسترد کردیا اور دشواریوں کا سامنا کرتے ہوئے بھی لاک ڈاؤن پر عمل کیا ۔ اب یہ بات بہر طور قابل توجہ ہے کہ ہندوستانی عوام کو حکومت سے زیادہ از خود کورونا وائرس سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے ۔ حکومت نے اس وائرس کا پہلا کیس آنے کے بعد روک تھام کا منظم لائحہ بنانے میں تاخیر کی تھی لیکن اب عوام کو وباء کی علامات اور بدلتی شکلوں کے بارے میں واقفیت ہوچکی ہے لہذا وہ اپنی اور دوسروں کی زندگیوں کا خیال کرتے ہوئے احتیاط سے کام لیں ۔ حکومت کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ ٹسٹنگ کا عمل تیز کرے ۔۔