کہاں ہیں کروڑوں ملازمتیں ؟

   

کہاں ہیں کروڑوں ملازمتیں ؟
ملک میں بیروزگاری اور ملازمتوں کا فقدان ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ کروڑوں نوجوان ملازمتوں اور نوکریوں کی تلاش میں ہیں اور انہیں ناکامی ہی ہاتھ آر ہی ہے ۔ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے مسلسل حکومت سے سوال کیا جا رہا ہے کہ اس نے اب تک ملازمتوں کی فراہمی میں کیا اقدامات کئے ہیں۔ یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ سالانہ دو کروڑ نوکریاں فراہم کرنے کا وعدہ پورا کیوں نہیں کیا گیا ۔ بیروزگاری بڑھتی جا رہی ہے اور یہی حال کچھ مہنگائی کا بھی ہے ۔ حال ہی میں ملک کی پانچ ریاستوں میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں بی جے پی کو جو کراری شکست ہوئی ہے اس کی وجہ بھی یہی سمجھی جا رہی ہے کہ بی جے پی حکومتوں نے روزگار کی فراہمی میں کوئی کام نہیں کیا ہے ۔ خاص طور پر مدھیہ پردیش ‘ راجستھان اور چھتیس گڑھ میں جس طرح سے بی جے پی کو شکست ہوئی ہے سمجھا جا رہا ہے کہ وہاں ملازمتوں کے فقدان اور بیروزگاری نے بی جے پی کی شکست میں اہم رول ادا کیا ہے ۔ کانگریس پارٹی اور دوسری اپوزیشن جماعتیں مسلسل حکومت سے اس مسئلہ پر سوال کر رہی ہیں لیکن حکومت نے اس پر کوئی جواب نہیں دیا تھا ۔ اب جبکہ آئندہ لوک سبھا انتخابات کا وقت قریب آتا جا رہا ہے یہ مسئلہ اور بھی اہمیت حاصل کرتا جا رہا ہے ۔ کروڑوں نوجوانوں میں بے چینی بڑھتی جا رہی ہے اور وہ ملازمتوں کے شدت سے متلاشی ہیں۔ ایسے میں اب اچانک ہی وزیر اعظم نریند رمودی نے دعوی کردیا ہے کہ ان کی حکومت نے گذشتہ ساڑھے چار سال میں کروڑوں روزگار فراہم کردئے ہیں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کروڑوں روزگار فراہم کئے گئے ہیں تو آخر یہ ملے کس کو ہیں۔ اگر واقعی روزگار فراہم کئے گئے ہیں تو پھر نوجوانوں میں بے چینی کی کیفیت کیوں پیدا ہو رہی ہے ۔ کیوں اپوزیشن جماعتوں کے سوال اٹھ رہے ہیں۔ حکومت پھر ان کو جواب کیوں نہیں دے رہی ہے ۔ حکومت کو یہ وضاحت کرنے کی ضرورت ہے کہ اس نے کس سال میں کتنے روزگار فراہم کئے ہیں۔ کس شعبہ میں کتنی ملازمتیں نوجوانوں کو حاصل ہوئی ہیں اور بیروزگاری کی حقیقی شرح اب کیا رہ گئی ہے ۔ ؟
گذشتہ دنوں ہی میں حکومت کی جانب سے اعلی طبقات کے معاشی کمزور افراد کو بھی 10 فیصد تحفظات فراہم کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ۔ اگر حکومت نے واقعی کروڑوں روزگار فراہم کردئے ہیں تو پھر مزید نئے تحفظات فراہم کرنے کی ضرورت کیا آن پڑی تھی ؟ ۔ پہلے ہی سے تحفظات کی شرح سپریم کورٹ کی مقررہ حد سے بڑھنے لگی تھی اب مزید 10 فیصد تحفظات کی فراہمی کا جواز کیا ہوسکتا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ تحفظات فراہم کرنے کیلئے معاشی کمزوری کی جو حد مقرر کی گئی ہے وہ بھی 8 لاکھ سالانہ آمدنی تک رکھی گئی ہے ۔ یہ سب کچھ ایک مذاق ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اب انتخابی سرگرمیوں کی شدت کے دوران وزیر اعظم مودی اور ان کے بی جے پی کے رفقائے کار ایک بار پھر جملہ بازیوں میں مصروف ہوگئے ہیں۔ جس طرح سے گذشتہ انتخابات کے دوران کالا دھن واپس لا کر ہر ایک شہری کے کھاتے میں لاکھوں روپئے جمع کروانے کا وعدہ کرکے اسے جملہ قرار دیدیا گیا اور عوام کو گمراہ کیا گیا اسی طرح اب ملازمتوں کی فراہمی پر کھوکھلے دعوے اور دروغ گوئی کرتے ہوئے ایک بار پھر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ حقیقت میں جو صورتحال وہ انتہائی مختلف ہے ۔ نوجوانوں کی بے چینی اس بات کو ظاہر کرتی ہے کہ انہیں روزگار ملا نہیں ہے بلکہ جو روزگار اور ملازمتیں پہلے ہی سے موجود تھیں وہ بھی نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی وجہ سے ختم ہوگئی ہیں۔
مرکزی حکومت کے وزرا کی جانب سے مختلف موقعوں پر بلند بانگ دعوے تو کئے جاتے رہے ہیں لیکن ملازمتوں کے مسئلہ پر کوئی واضح موقف اختیار نہیں دیا گیا تھا ۔ حالیہ عرصہ میں مرکزی وزیر نتن گڈکری نے ایک موقع پر کہا تھا کہ تحفظات فراہم کرنے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ کوئی ملازمتیں موجود ہی نہیںہیں۔ جب حقیقت میںایسا ہے تو پھر وزیر اعظم کے دعوی کے مطابق کروڑ ہا ملازمتیں کہاں سے فراہم کی گئی ہیں ؟ ۔ صرف جملہ بازیوں کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے کی بجائے وزیر اعظم کو حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے یہ وضاحت کرنی ہوگی کہ آخر کروڑ ہا ملازمتیں کہاں اور کس کو فراہم کی گئی ہیں۔