کیا اب متھرا کی باری ہے ؟ کرشنا جنم بھومی مسئلہ پھر زندہ

   

رام پنیانی

اترپردیش کے اسمبلی انتخابات آئندہ چند ماہ میں ہونے والے ہیں۔ اترپردیش کی سیاست اور وہاں کے موجودہ حالات پر قریبی نظر رکھنے والے سیاسی تجزیہ نگار اس خیال کے حامی ہیں کہ بی جے پی، مودی ۔ یوگی کی مقبولیت میں بڑی تیزی سے گراوٹ آرہی ہے اور اس کی وجہ حالیہ وقتوں میں عوام کو جن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے، وہ مشکلات ہیں۔ مثال کے طور پر کورونا وائرس کی وباء پھوٹ پڑنے کے بعد مزدوروں نے بڑی تعداد میں نقل مکانی کی اور ان مزدوروں کی مدد میں مودی۔ یوگی دونوں کی حکومتیں ناکام رہیں۔ مودی حکومت نے کسانوں کے خلاف تین زرعی قوانین بنائے، کسانوں نے ان قوانین کو سیاہ قرار دیتے ہوئے احتجاجی تحریک شروع کردی (یہ اور بات ہے کہ مودی حکومت کو کسانوں کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے، اس نے شاید یوپی اور پنجاب کے مجوزہ اسمبلی انتخابات کے پیش نظر زرعی قوانین واپس لینے کا اعلان کیا۔) ہندوستان بھر میں بیروزگاری اپنے نقطہ عروج پر پہنچ گئی، قیمتیں آسمان چھونے لگیں، نگہداشت صحت کا شعبہ ٹھپ ہوکر رہ گیا، ساتھ ہی عوام فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم ہوگئے۔ ویسے بھی پچھلے دو دہوں کے دوران سارے ہندوستان نے دیکھا کہ کس طرح عوام کو مذہبی خطوط پر تقسیم کیا گیا اور کیا جارہا ہے۔ اس تناظر میں ڈپٹی چیف منسٹر اترپردیش کیشو پرساد موریا کے ٹوئیٹس کو دیکھا جاسکتا ہے۔ اپنی حکومت کے لا اینڈ آرڈر کی برقراری کیلئے کئے گئے اقدامات کو مستحکم بتاتے ہوئے انہوں نے ایک ایسا بیان دیا جس سے ان کی فرقہ وارانہ ذہنیت کا اظہار ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نے جرائم ، اغوا ، اراضیات پر ناجائز قبضوں سے لوگوں کو راحت دلائی ہے اور یہ تمام جرائم لنگی والے اور ٹوپی والے کیا کرتے تھے۔ موریا دراصل مسلمانوں کی جانب اشارہ کررہے تھے۔ ایک اور قدم آگے بڑھتے ہوئے موریا کا یہ بھی کہنا تھا کہ ایودھیا اور کاشی میں ہم نے بڑی منادر تعمیر کی ہیں۔ اگلا نشانہ متھرا ہوگا۔ ویسے بھی 6 ڈسمبر کو متھرا میں شاہی عیدگاہ پر پوجا پاٹ کرنے کی کئی ایک فرقہ پرست تنظیموں نے دھمکی دی تھی۔ جہاں تک مندر۔ مسجد مسئلہ کا سوال ہے، 1984ء سے یہ مسئلہ بی جے پی کیلئے بہت فائدہ بخش رہا ہے۔ 1984ء میں مندر۔ مسجد مسئلہ اٹھایا گیا اور 1986ء میں وشوا ہندو پریشد نے اس بات کا اعلان کیا تھا کہ ہم ایودھیا میں لارڈ رام، وارناسی میں لارڈ شیوا اور متھرا میں لارڈ سری کرشنا کی مندروں کو عظیم الشان مندروں میں تبدیل کریں گے۔ ان تنظیموں نے بابری مسجد کو شہید کرتے ہوئے جو نعرہ لگایا تھا، وہ یہی تھا ’’یہ تو آغاز ہے اب کاشی اور متھرا کی باری ہے‘‘۔حالانکہ 1991ء میں پارلیمنٹ میں مذہبی مقامات سے متعلق ایک قانون منظور کیا گیا جس میں یہ کہا گیا کہ 15 اگست 1947ء سے قبل عبادت گاہوں کا جو موقف تھا، وہ جوں کا توں رہے گا لیکن اس قانون سے بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی کو الگ رکھا گیا۔ ویسے بھی بی جے پی اور آر ایس ایس کیلئے انتخابی فائدے حاصل کرنے کے جو اہم ہتھیار ثابت ہوئے ہیں، وہ مندر ۔ مسجد مسئلہ اور فرقہ وارانہ خطوط پر لوگوں کی تقسیم ہے۔ ان تنظیموں نے رام مندر مہم چلاتے ہوئے اس کا عملی مظاہرہ کیا جس کے نتیجہ میں شہادت بابری مسجد کا سانحہ پیش آیا اور رام مندر کی تعمیر عمل میں آئی۔ بابری مسجد کے مقدمہ میں بھی فرقہ پرست تنظیموں کے دعوؤں اور کئی خامیوں کے باوجود سپریم کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ 1949ء میں بابری مسجد میں رام للا کی مورتیاں بٹھانا یا رکھنا ایک جرم تھا۔ سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ 6 ڈسمبر 1992ء کو بابری مسجد شہید کی گئی، وہ بھی ایک جرم تھا۔ اس کے علاوہ اس بات کے بھی کوئی شواہد نہیں کہ بابری مسجد کے نیچے رام مندر موجود تھی اور پھر بالآخر اس بات کا بھی دعویٰ کرنے کیلئے بھی کوئی ثبوت نہیں کہ لارڈ رام اسی مقام پر پیدا ہوئے۔ ان تمام حقیقتوں کے باوجود رام مندر کی تحریک اور شہادت بابری مسجد ملک میں تخریبی سیاست کرنے والوں کیلئے بڑی فائدہ بخش رہی جس کا نتیجہ موجودہ اقتدار پر دائیں بازو کی طاقتوں کا قبضہ ہے۔ ایک ممتاز اسکالر رچرڈ ایٹون کا کہنا ہے کہ کئی ہندو راجاؤں نے اپنے حریف راجاؤں کے کل دیوتاؤں کی مورتیوں کو توڑا، یہاں تک کہ اورنگ زیب کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے گولکنڈہ میں ایک مسجد کو تباہ کیا۔ یہ تمام واقعات میں یوں ہی نہیں کہہ رہا ہوں بلکہ تاریخ میں دستاویزات کی شکل میں یہ موجود ہیں۔ دراصل ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان مذہبی منافرت پھیلانے کا کام سب سے پہلے انگریزوں نے کیا۔ ’’پھوٹ ڈالو اور حکومت کرو‘‘ کی پالیسی اپنائی اور اس کیلئے تاریخ کے چنندہ حصوں کو پیش کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ انگریزوں کی پیدا کردہ غلط فہمی کو فرقہ پرست تنظیموں نے اپنے سیاسی مفادات کی تکمیل کیلئے استعمال کرنا شروع کردیا اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ ماضی میں ہندوؤں کو ستایا گیا، ان کے ساتھ ناانصافی کی گئی، مندروں کو توڑا گیا، پھر کیا تھا۔ فرقہ پرست تنظیموں نے اپنی شاکھاؤں، اپنے میڈیا نیٹ ورک کے ذریعہ مسلم بادشاہوں کی بدنامی کو یقینی بنایا اور کہا کہ مسلم بادشاہوں نے مندروں کو تباہ کیا۔ انگریزاسکالر رچرڈ ایٹن آڈرے ٹرشکے نے اپنی کتاب میں اورنگ زیب کے بارے میں بہت کچھ لکھا ہے، اس کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے رچرڈ ایٹن لکھتے ہیں کہ ہزاروں ہندو اور جین مندر جو مغل دور میں تھیں، ان میں سے بیشتر منادر آج بھی موجود ہیں۔ رچرڈ ایٹن ایک اندازہ لگاتے ہیں کہ اورنگ زیب کے اقتدار کے دوران تقریباً ایک تا 12 مندروں کو شاہی احکامات کی بنیاد پر توڑا گیا۔ ٹرشکے مزید لکھتے ہیں کہ سیاسی تبدیلیوں اور واقعات نے اورنگ زیب کو ہندو مندروں پر حملے شروع کرنے کیلئے اُکسایا۔ مثال کے طور پر اورنگ زیب نے 1669ء میں کاشی وشواناتھ مندر اور 1670ء میں متھرا کیشو دیو مندر کو گرانا کا حکم دیا۔ ان دونوں واقعات میں اورنگ زیب نے مندر سے جڑے لوگوں کو ان کی سیاسی غلطیوں کی سزا دینے کیلئے یہ کارروائی کی تاکہ وہ مستقبل میں ایسی غلطیاں نہ کریں۔ وہ لکھتی ہیں کہ 1670ء میں اورنگ زیب نے کرشنا دیو مندر متھرا کو منہدم کرنے کا حکم دیا۔ یہ مندر 1618ء میں بیرسنگھ بندیلا نے تعمیر کروایا تھا۔ ان سیاسی وجوہات کی بناء پر متھرا کے برہمنوں نے 1666ء میں آگرہ سے شیواجی کی فراری میں مدد کی تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مندر کی سرپرستی اورنگ زیب کے بھائی داراشکوہ نے کی۔ تاریخ کے سائنٹفک جائزہ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ بادشاہوں اور راجاؤں کی حکمرانوں کا اولین مقصد اقتدار اور دولت کا حصول ہوتا تھا جبکہ انگریزوں نے بادشاہوں سے جڑے واقعات کو فرقہ وارانہ تاریخ کی حیثیت سے متعارف کروایا اور انہوں نے یہ اقدام بہت چالاکی سے کیا تھا جس کا اثر یہ ہوا کہ مسلم بادشاہوں کے تعلق سے کئے گئے پروپگنڈہ سے مسلمان متاثر ہورہے ہیں۔ موجودہ حالات میں کرشنا جنم بھومی اور عیدگاہ جو ایک دوسرے سے متصل ہیں، انہیں ہماری تہذیب و ثقافت کے مثبت پہلو کے طور پر لینا چاہئے۔ تاحال اس علاقہ کے ہندو او ر مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ پرامن طور پر رہ رہے ہیں اور ایک دوسرے کے تہوار میں ایک دوسرے کو مبارکباد بھی دیتے ہیں۔ ممبئی کے دادر میں بھی ایسا ہی منظر دیکھنے کو ملتا ہے جہاں مندر ۔ مسجد اور چرچ ایک دوسرے کو چھوتے دکھائی دیتے ہیں۔ 1992-93ء میں بھیانک فسادات برپا ہوئے تھے تب بھی کسی نے بھی ان عبادت گاہوں کو چھونے کی جرأت نہیں کی تھی، ایسے میں کیا ہم ایک ایسے ہندوستان کے بارے میں سوچ نہیں سکتے کہ جہاںدوستی ، باہمی احترام کے اسی طرح کے مناظر نظر آتے رہے۔ بجائے اس کے کہ ہم ایک دوسرے کی عبادت گاہوں کو مٹاتے رہیں۔