کیا امریکہ ، افغانستان کے 9 ارب ڈالرس طالبان کو دے گا ؟

   

محمد ریحان
حالیہ عرصہ کے دوران قطر میں طالبان اور امریکہ کے ایک خصوصی وفد کے درمیان مذاکرات ہوئے جس میں فریقین نے ایک دوسرے سے کئی مطالبات کئے۔ ان مطالبات میں طالبان کی جانب سے کیا گیا یہ مطالبہ سرفہرست رہا کہ امریکہ میں منجمد افغانستان کے اثاثے غیرمنجمد کئے جائیں اور امریکہ نے افغانستان پر جو پابندیاں عائد کی ہیں، اسے برخاست کردیا جائے۔ امریکہ نے دوسری جانب طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ اس بات کو یقینی بنائے کہ سرزمین افغانستان مستقبل میں دہشت گرد حملوں کیلئے استعمال نہ ہو۔ واضح رہے کہ 29 اور 30 نومبر کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں حکومت افغانستان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے امریکہ کے خصوصی نمائندے برائے افغانستان تھامس ویسٹ نے بات چیت کا آغاز کیا۔ امریکی وفد میں امریکی محکمہ خارجہ، محکمہ خزانہ، امریکی خفیہ تنظیموں کے عہدیداروں و ارکان اور یو ایس ایڈ جیسی تنظیم کے نمائندے شامل تھے۔ امریکہ ، افغانستان سے انخلاء کے بعد اپنی خفت کو مٹانے کی کوشش کررہا ہے، کیونکہ عالمی سطح پر اس کا امیج بہت خراب ہوا ہے۔ امریکی فورسیس کے انخلاء کو طالبان کی کامیابی اور امریکہ کی شکست قرار دیا جارہا ہے۔ ان حالات میں بائیڈن انتظامیہ کی ہر ممکن کوشش یہی ہے کہ کسی نہ کسی طرح امریکی قومی مفادات کا تحفظ کیا جائے اور اس کے قومی مفادات کو برقرار رکھنے پر توجہ مرکوز ہو۔ امریکہ یہی چاہتا ہے کہ طالبان اس کی ہدایتوں پر عمل کریں اور طالبان یہ چاہتے ہیں کہ امریکہ، ان کے منجمد فنڈز کو غیرمنجمد کرے۔ امریکی مذاکرات کاروں نے افغانستان پر طالبان کے دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کے بعد پہلی مرتبہ طالبان سے بات چیت کی۔ انہیں اپنے ملک سے کہیں زیادہ افغان شہریوں کی فکر کھائی جارہی ہے۔ امریکی وفد نے طالبان سے جو مذاکرات کئے ہیں اور مطالبات کئے ہیں۔ ان میں سے ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ خواتین، لڑکیوں اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے۔ بتایا جاتا ہے کہ امریکی وفد نے ایک امریکی یرغمال مارک فریچیس کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے۔ واضح رہے کہ طالبان نے نومبر کے تیسرے ہفتہ میں ایک مراسلہ روانہ کرتے ہوئے امریکی قانون سازوں پر زور دیا کہ وہ افغانستان کے اثاثوں کو غیرمنجمد کرنے میں مدد کریں، کیونکہ طالبان حکومت کو ان اثاثوں کی شدید ضرورت ہے۔ آپ کو یاد ہوگا کہ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے پرزور انداز میں عالمی برادری کو اور خاص طور پر امریکہ کو یہ پیغام دیا تھا کہ وہ تمام طالبان حکومت کو تسلیم کریں اور اگر عالمی برادری بشمول امریکہ ، طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے گریز کرتی ہے تو یہ طالبان سے کہیں زیادہ عالمی برادری کیلئے نقصان دہ ثابت ہوگی اور دنیا کیلئے مسائل پیدا ہوں گے۔ اگر امریکہ اور عالمی برادری، طالبان حکومت کو تسلیم کرتے ہیں اور افغانستان کے سنٹرل بینک کے اثاثے غیرمنجمد کئے جاتے ہیں، افغان بینکوں پر عائد پابندیاں برخاست کی جاتی ہیں تو پھر اس سے افغانستان اور عالمی برادری کے درمیان تعلقات کے ایک نئے دور کا آغاز ہوگا۔ آپ کو یاد دلادیں کہ جوبائیڈن انتظامیہ نے طالبان حکومت پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے ساتھ ساتھ افغان سنٹرل بینک کے 9 ارب ڈالرس سے زائد اثاثے منجمد کردیئے ہیں۔ دوسری طرف عالمی بینک اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) بھی افغانستان کو دی جانے والی 1.2 ارب ڈالرس کی امداد روک دی۔ حالانکہ یہ امداد جاریہ سال افغانستان کیلئے جاری کی جانے والی تھی، تاہم جوبائیڈن انتظامیہ کو کئی ایک مجبوریوں کا سامنا ہے۔ وہ جانتی ہے کہ افغان عوام انسانی امداد کے مستحق ہیں لیکن پابندیوں کے نتیجہ میں طالبان امریکہ میں منجمد اپنی رقم تک رسائی حاصل نہیں کرسکتے۔ اگر امریکہ ، افغانستان کے منجمد اثاثے غیرمنجمد نہیں کرتا ہے تو پھر افغان عوام اور طالبان حکومت کے ساتھ ساتھ عالمی برادری کو مسائل کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اور افغانستان کے شہری بڑے پیمانے پر نقل مکانی کرسکتے ہیں جبکہ دنیا فی الحال بڑے پیمانے پر نقل مکانی کی متحمل نہیں ہے۔ طالبان اسے انسانی بحران قرار دیتے ہیں۔ امریکی قانون ساز یہ بھی اچھی طرح جانتے ہیں کہ خود اقوام متحدہ کے ورلڈ فوڈ پروگرام نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان برسوں سے گڑبڑزدہ ملک رہا ہے ۔ جنگ جدال اور طویل عرصہ تک جاری رہی خشک سالی نے وہاں کے عوام کو شدید متاثر کیا اور ان حالات میں ملک کی 4 کروڑ آبادی میں سے نصف سے زیادہ آبادی غذائی قلت کا شکار ہوسکتی ہے۔ جہاں تک طالبان کا سوال ہے، طالبان نے ابتداء ہی سے دنیا پر یہ ظاہر کرچکا ہے کہ اب وہ بدل چکے ہیں، ان کی طرز حکمرانی میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ بہتر حکمرانی کو یقینی بنایا جارہا ہے۔ طالبان چونکہ مذہب سے بہت قریب ہیں، اس لئے وہ منشیات، بدعنوانی اور جرائم کے سخت خلاف ہیں۔ طالبان کی پہلی میعاد کے دوران بھی افغانستان میں جسم فروشی، قمار بازی، منشیات کی لعنت اور دیگر سماجی برائیوں کا خاتمہ کیا گیا۔ ملک کے طول و عرض میں عصمت ریزی ، چوری اور دیگر جرائم کی شرح میں ناقابل یقین حد تک کمی ریکارڈ کی گئی تھی۔ امریکہ ، طالبان سے یہی چاہتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دوسرے ملکوں کے خلاف دہشت گردی کیلئے استعمال نہ کریں۔ جبکہ مبصرین کے مطابق امریکہ کو چاہئے کہ وہ اپنی عالمی ساکھ مزید بگڑنے سے بچانے کیلئے افغانستان کی مختلف شعبوں خاص کر اقتصادی، صحت عامہ اور تعلیم کے شعبوں میں مدد کرے اور اسے اپنے مفادات سے کہیں زیادہ انسانی مفادات کو ملحوظ رکھنا ہوگا۔ ایک بات یہ کہی جارہی ہے کہ طالبان اور امریکی نمائندوں کے درمیان مذاکرات مثبت رہے اور آئندہ بھی مذاکرات کے سلسلے کو جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ امریکہ نے اقوام متحدہ و انسانی ہمدردی کے اداروں کی افغانستان میں کوششوں کی حمایت کا سلسلہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔ اس ملاقات میں امریکی نمائندوں نے افغانستان میں القاعدہ اور داعش کی موجودگی پر تشویش کا اظہار کیا، لیکن اسے اندازہ نہیں کہ طالبان بڑی آسانی سے اپنی صفوں میں موجود دشمنوں کا پتہ چلالیتے ہیں۔ ان کی نظروں سے دشمن نہیں بچ پاتے۔ امریکہ بھی طالبان میں پائی جانے والی اس خوبی سے اچھی طرح واقف ہے۔ طالبان کے ساتھ دوستی کے ذریعہ یہ امن حاصل کیا جاسکتا ہے۔ طالبان نے جاریہ سال 15 اگست کو اقتدار حاصل کرنے کے بعد دنیا پر یہ واضح کردیا تھا کہ وہ امن کے خواہاں ہیں اور وہ افغان عوام کی بہبود کیلئے امریکہ اور دیگر عالمی طاقتوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہیں، لیکن ان کے اعتماد کو کسی بھی طرح ٹھیس نہ پہنچائی جائے چونکہ وہ پوری دیانت داری کے ساتھ عالمی برادری کے ساتھ مل کر کام کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اس ضمن میں طالبان نے ہندوستان کے ساتھ بھی مل کر کام کرنے کا اعلان کیا۔ اگرچہ پاکستان کسی بھی طرح افغانستان میں ہندوستان کے کردار کو پسند نہیں کرتا، اس کے باوجود طالبان کا ہندوستان کو تعلقات بہتر بنانے کیلئے ہری جھنڈی دکھانا ایک صحت مند تبدیلی ہے۔ ہندوستان طالبان سے تعلقات کو بہتر بناتے ہوئے کئی شعبوں میں افغانستان اور ہندوستان کے باہمی تعلقات کو نئی بلندیوں پر پہنچا سکتا ہے۔