کیا پاکستان بحران سے ابھر پائیگا ؟

   

پڑوسی ملک پاکستان ان دنوں انتہائی سنگین بحران کا شکار ہے ۔ مالیہ کی قلت اس حد تک بڑھ گئی ہے کہ آئندہ دنوں میں پاکستان کے سری لنکا کی صورتحال سے دوچار ہونے کے خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ پاکستان میں بیرونی زر مبادلہ کے ذخائر بھی ختم ہونے لگے ہیں اور کسی بھی وقت پٹرولیم اشیا کی خریداری متاثر ہوسکتی ہے ۔ جس طرح سے عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض وصولی کیلئے پاکستان جدوجہد کر رہا ہے اس سے حالات کی سنگینی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے ۔ ابھی جبکہ عالمی مالیاتی فنڈ نے کوئی قرض جاری نہیں کیا ہے پاکستان اس کی شرائط پر عمل کرنے پر تیار ہوگیا ہے ۔ اسی سلسلہ کی کڑی کے طور پر گذشتہ دنوں پٹرول ‘ ڈیزل وغیرہ پر قیمتوں میں اضافہ کردیا گیا ۔ اب پاکستان میں فی لیٹر پٹرول 272 روپئے فی لیٹر تک پہونچ گیا ہے ۔ آٹے اور دال کی قیمتیں بھی عام آدمی کی پہونچ سے باہر ہوتی جا رہی ہیں ۔ عام آدمی کیلئے آمدنی سے زیادہ اخراجات نے کمر توڑنے جیسی صورتحال پیدا کردی ہے ۔ جہاں تک حکومت کا سوال ہے وہ بحران کے کوئی مستقبل اور موثر حل کو دریافت کرنے کی بجائے قرض حاصل کرنے کے واحد آسان راستہ کو اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ قرض کا حصول حکومت کیلئے آسان ہوسکتا ہے اور اس کیلئے یہی بہتر راستہ ہوسکتا ہے لیکن چند ہی برسوں میں اس کا بوجھ بھی عام آدمی پر عائد کردیا جائیگا اور عام آدمی اپنی دال روٹی پوری کرنے کی بجائے حکومتوں کے لئے ہوئے قرض کی ادائیگی کیلئے مجبور کردیا جائیگا ۔ اب پاکستانی عوام کی اکثریت کا عالم یہ ہے کہ وہ صرف دو وقت کی روٹی کی فکر کرنے پر مجبور کردئے گئے ہیں۔ انہیں مہنگائی یا پھر ملک کو درپیش حالات کی کوئی فکر لاحق نہیں رہ گئی ہے ۔ وہ اس قدر دو وقت کی روٹی کے چکر میں الجھا دئے گئے ہیں کہ انہیں اب اس کے سواء کچھ اور نظر ہی نہیں آ رہا ہے ۔ یہ ایسی صورتحال ہے جو پاکستان کو پہلے کبھی درپیش نہیں رہی ہے ۔ تاہم یہ ضرور کہا جاسکتا ہے کہ حالات بتدریج اسی نہج پر آگے بڑھ رہے تھے اور وہاں کی حکومتیں اس خطرہ کو بھانپنے میں ناکام رہیں یا پھر خطرہ کو محسوس کرتے ہوئے بھی اسے ٹالنے پر کسی حکومت نے توجہ نہیں دی ۔
حکومتوں کی جانب سے تاحال جو اقدامات کئے گئے ہیں وہ صرف امداد یا قرض کے حصول تک ہی محدود رہے ہیں۔ کبھی چین کے دروازے پر پہونچ گئے تو کبھی عرب ممالک سے دست سوال دراز کرلیا ۔ کبھی امریکہ سے مانگنے چلے گئے تو کبھی عالمی مالیاتی اداروں سے رجوع ہوگئے ۔ ملک کی معیشت کو ترقی دلانے کیلئے کوئی ٹھوس اور جامع اقدامات نہیں کئے گئے ۔ کوئی منصوبہ بندی نہیں کی گئی ۔ کوئی پروگرامس تیار نہیں کئے گئے ۔ نہ صنعتوں کو مستحکم کرنے پر توجہ دی گئی اور نہ بجلی پیداوار پر کوئی پروگرام تیار کیا گیا ۔ نہ پانی کے ذخائر کے استعمال کیلئے کوئی پراجیکٹ شروع کیا گیا اور نہ ملک کے نوجوانوں کو اندرون ملک ہی روزگار کے موقع فراہم کرنے کے مقصد سے کوئی اقدامات کئے گئے ۔ صرف اڈھاک بنیادوں پر کام چلاؤ انداز ہر حکومت نے اختیار کیا جس کا لازمی نتیجہ یہ نکال کہ آج پاکستان دیوالیہ ہونے کے قریب پہونچ گیا ہے ۔ کسی بھی وقت ملک کے دیوالیہ ہونے کا اعلان ہوسکتا ہے ۔ جس طرح کے حالات سے پاکستان کے عوام گذر رہے ہیں وہ طویل خانہ جنگی سے گذرنے والے ممالک کے عوام سے بھی بدتر کہے جاسکتے ہیں۔ نہ حکومت عوام کی پرسان حال ہے اور نہ ہی صنعتی حلقوں کی جانب سے کوئی ٹھوس قدم اٹھائے جا رہے ہیں۔ نہ وزراء سنجیدگی سے کوئی کام کرنا چاہتے ہیں اور نہ ہی دوسرے متعلقہ عہدیداروں کو عوام کی حالت زار کی کوئی فکر رہ گئی ہے ۔ ہر کوئی اپنی جھولی بھرنے میں لگا ہوا ہے اور عوام بے یار و مددگار چھوڑ دئے گئے ہیں۔
اب پاکستان جس بحران کا شکار ہے وہ انتہائی سنگین کہا جاسکتا ہے ۔ خود پاکستان کی حکومت بھی اس بحران کی سنگینی کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ وہ صرف عالمی مالیاتی فنڈ سے قرض حاصل کرنے کو ہی اپنا واحد ایجنڈہ بنائے ہوئے ہے ۔ ملک کی معیشت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے ۔ اسے مستحکم کرنے کے اقدامات کرنے اور ملک کے عوام کو اعتماد میں لیتے ہوئے سخت فیصلے کرنے کیلئے تیار نظر نہیں آتی ۔ حکومت کو اپنی صفوں میں ڈسیپلن لانے سے بھی کوئی دلچسپی نہیں ہے ۔ موجودہ حالات میں یہ کہا نہیں جاسکتا کہ پاکستان اس بحران سے باہر نکل بھی پائیگا یا نہیں۔ کم از کم حکومت کے رویہ سے تو ایسی کوئی امید نظر نہیں آتی ۔