کیرالا میں اعلیٰ ذات کے ہندو عیسائی کیوں بنے

   

منو جوزف

جنوبی ہند کی ریاست کیرالا کا شمار ملک کی خوشحال اور ترقی یافتہ ریاستوں میں ہوتا ہے، اس ریاست میں ہندوؤں کے ساتھ ساتھ مسلمانوں اور عیسائیوں کی اچھی خاصی آبادی ہے اور کیرالہ کے لوگوں میں اس لحاظ سے بہت زیادہ اتحاد پایا جاتا ہے کہ سب کے سب بلا لحاظ مذہب و ذات پات ایک ہی زبان ’’ ملیالم ‘‘ بولتے ہیں اور انہیں اپنی زبان سے بہت محبت ہوتی ہے ایسے میں یہی کہا جاتا ہے کہ کیرالہ کے عوام کو ملیالم زبان نے متحد کررکھا ہے تاہم اس ریاست میں حالیہ عرصہ کے دوران فرقہ پرست عناصر سراُبھارنے لگے ہیں خاص طور پر تبدیلی مذہب کے الزامات عائد کرتے ہوئے وہ کیرالہ کی پُرامن فضاء کو خراب کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بہرحال وقفہ وقفہ سے جب یہ کالم محب وطن ہونے کا دعویٰ کرنے والوں کو جب تکلیف دیتا ہے یا برہم کرتا ہے تو وہ مجھے Rice Bag کہنے لگتے ہیں۔X.com پر ان لوگوں نے واضح طور پر کہا ہے کہ میں نے عیسائی مشنری کی جانب سے رقم کے عوض ہندومت ترک کرکے عیسائیت قبول کیا ہے۔ میں اس قسم کے الزام پر بہت ناراض ہوں۔ مجھ پر ناسپتی کے ایک تھیلے یہاں تک کہ مارچوپAsparagusکے ایک تھیلے کے عوض اپنے مذہب کو ترک کرکے عیسائیت قبول کرنے کے مضحکہ خیز الزامات بھی عائد کئے جائیں گے، یہ ہتک بھی بہت مضحکہ خیز ہے اپنے آپ میں مزاح سے بھرپور ہے۔ خاص طور پر میرے دادا، دادی کیلئے تو یہ بہت زیادہ مضحکہ خیز ہے۔ جن لوگوں نے مجھ پر یہ الزام عائد کیا ہے کہ میں نے رقم کے لالچ اور رقم کے عوض ہندوازم ترک کرتے ہوئے عیسائیت قبول کیا ہے شائد ان میں سے کئی لوگوں کے باپ، دادا کو میرے دادا، دادی کے گھروں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں رہی ہوگی کم از کم باب الداخلہ سے داخل ہونے کی اجازت تو نہیں رہی ہوگی۔ میرے لوگ اگرچہ ان میں چند غریب زمیندار تھے خود کو اعلیٰ ذات کے لوگ تصور کرتے تھے وہ نہ صرف عیسائیوں بلکہ اکثر ہندوؤں کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔ ایک اور بات آپ کو بتادوں کہ ہندوستان کی دوسری ریاستوں کے عیسائیوں کی بہ نسبت کیرالہ کے عیسائی سماجی اور معاشی اشرافیہ کا حصہ ہیں۔ بہت سے لوگ خود کو اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والے سمجھتے ہیں حالانکہ ان لوگوں میں سے بعض کا خیال ہے کہ ان کے آباء و اجداد ابتداء میں عیسائی مذہب کے ماننے والے تھے اور وہ لوگ مشرق وسطیٰ سے ہندوستان ( کیرالہ ) میں داخل ہوئے اور پھر وہ عیسائی دوسری عیسوی کے قریب کیرالہ میں آکر آباد ہوئے تاہم کیرالہ کے کچھ عیسائی ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ان کے آباء و اجداد اور وہ خود برہمن تھے لیکن اپنا مذہب تبدیل کرکے عیسائیت قبول کی۔ اس ضمن میں ان لوگوں کا کہنا ہے کہ منگلور اور گوا میں بھی برہمن عیسائی ہیں، اگر آپ نے اس کا اندازہ نہیں لگایا تو وہ اس خیال کو بہت پسند کرتے ہیں کہ وہ کبھی برہمن تھے۔ جہاں تک میرا سوال ہے مجھے یہ زیادہ دلچسپ نہیں لگتا حالانکہ یہ سوال کیا دلچسپ نہیں کہ زمانہ قدیم میں اعلیٰ ذات کے ہندو اپنی شاندار مراعات کو کیوں ترک کریں گے ؟ کیوں عیسائی مذہب قبول کریں گے؟۔ حال ہی میں کیرالہ کے ایک بشپ نے ایسے عیسائیوں کو آڑے ہاتھوں لیا جو دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ماضی میں برہمن تھے۔ بشپ کے خیال میں اس قسم کے دعوے بوگس یا جھوٹے ہیں اور کیرالہ کے جو عیسائی ہیں وہ کبھی برہمن نہیں تھے اور نہ ہی برہمنوں نے اپنا مذہب تبدیل کرکے عیسائیت قبول کیا۔بعض مورخین جنہیں بشپ کے بیان سے ہمدردی ہے یہ استدلال پیش کرتے ہیں کہ کیرالہ میں دوسری صدی کے آس پاس عیسائی آباد تھے اور اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ پہلے برہمن تھے یا کیرالہ میں برہمنوں کے طور پر اپنی پہچان رکھنے والے لوگوں نے ان عیسائیوں کی حمایت یا مدد کی تھی اور ان میں شامل ہوئے تھے جو حقیقت میں عیسائی تھے۔ مانو ایس پلاٹی لکھتے ہیں کہ چند صدیاں قبل کیرالہ میں ایک خاص رجحان پایا جاتا تھا وہ یہ کہ ملیالی عیسائیوں کے چھوئے ہوئے تیل کو مندروں میں چراغ روشن کرنے اور پوجا کیلئے مخصوص آگ روشن کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا رہا اور ایسا لگتا ہے کہ وہ رجحان برہمنی مراعات کا تسلسل تھا جس پر ان کے عیسائیت قبول کرنے کے باوجود کوئی اثر نہیں پڑا۔ اس کے علاوہ قدیم اور قرون وسطیٰ کے کیرالہ میں اسی طرح کی الگ الگ بستیاں ہوتی تھیں جس طرح نچلی ذات سے تعلق رکھنے والوں کی ہندوستان کے دوسرے مقامات پر بستیاں ہوا کرتی تھیں۔ ( آج بھی ایسی بستیاں اور علاقے ہمارے ملک میں موجود ہیں ) اور برہمن نچلی ذات کے لوگوں پر نظر ڈالنا بھی اپنے لئے المیہ تصور کرتے تھے جبکہ کیرالہ میں ایک ایسا دور بھی تھا جہاں ہندو دیوتاؤں اور سینٹ تھامس کی تصویر کے مشترکہ جلوس نکالے جاتے تھے وہ سیکولرازم کی کوئی علامت نہیں تھی بلکہ اعلیٰ ذات سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان ایک طرح کا کاسمو پالٹین تعاون و اشتراک تھا۔
سجاتا گدلا بحیثیت دلت اپنے بڑے ہونے کی یادیں تازہ کرتے ہوئے لکھتی ہیں یا حوالہ دیتی ہیں کہ ایک ملیالی عیسائی لڑکی جس کا ان کے انکل سے معاشقہ چل رہا تھا دونوں ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار تھے، وہ لڑکی اپنے عاشق کو خفیہ طریقہ سے اپنے گھر بلایا کرتی تھی لیکن ہمیشہ عقبی دروازے سے وہ اسے گھر میں داخل کرتی کیونکہ عاشق ایک دلت تھا اچھوت تھا، ایسے میں یہ اشارے ملتے ہیں کہ برہمن اور دوسری اعلیٰ ذات کے لوگوں نے عیسائیت قبول کیا تھا لیکن کیوں قبول کیا تھا اس بارے میں تاریخی طور پر وجوہات برسرِ عام نہیں لائی جاتی۔ یہ کہا جاتا ہے کہ ایک یوروپی عیسائی مبلغ کیرالہ آیا اور برہمنوں کو عیسائیت قبول کرنے پر رضامند کیا اور کلب کی تاحیات خصوصی ممبر شپ ( رکنیت ) دی، یہ دلیل میرے لئے ناقابل قبول ہے، مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ اس وقت کونسی زبان استعمال کی گئی ہوگی۔ ایک اور بات یہ کہی جاتی ہے کہ جب یوروپی حکومتوں اور باشندوں کا ہندوستان میں اثر و رسوخ بڑھنے لگا عیسائی مبلغین کی آمد بھی بڑھنے لگی اور ان لوگوں نے گلیوں گلیوں میں عیسائی مذہب کا پرچار کیا لیکن اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ 15 ویں صدی کے اواخر سے قبل کیرالہ میں کیونکر برہمنی عیسائی موجود تھے۔ یعنی پہلے یوروپی عیسائی کی آمد سے قبل ہی برہمنی عیسائی موجود تھے تو آخر کیونکر اور کیسے موجود تھے؟۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ یوروپ میں عیسائیت کے داخل ہونے سے پہلے ہی کیرالہ میں عیسائیت پہنچ چکی تھی اور دراصل جب پُرتگالی کیرالہ میں داخل ہوئے ان لوگوں نے مقامی اشرافیہ کے ساتھ عیسائیوں کو بھی پایا جنہوں نے کبھی پوپ یا وٹیکن کے بارے میں نہیں سنا تھا۔ کچھ نہ کچھ ایسی چیز تھی جو برہمنوں کو عیسائی بنارہی تھی اور ان میں اس طرح کی جذباتی یا معاشی منطق موجود نہیں تھی جو نچلی ذات کے ہندوؤں میں پائی جاتی تھی جنہوں نے عیسائیت قبول نہیں کیا۔ تبدیلی مذہب ایک نئی اصطلاح ہے۔ ان لوگوں نے عیسائیت کو اس لئے اپنایا کیونکہ وہ ان کیلئے ایک نیا اور بیرون ملک سے لاکر متعارف کروایا گیا مذہب تھا۔