کے سی آر مسلمانوں کے حقیقی دوست، تلنگانہ میں اقلیتوں کیلئے ہندوستان بھر میں سب سے زیادہ بجٹ

   

حیدرآباد فسادات اور کرفیو سے پاک، بی آر ایس حکومت کا کارنامہ، تیسری مرتبہ بھی کے چندرشیکھر راؤ کی کامیابی یقینی
2024 ء عام انتخابات میں مودی اور بی جے پی ہوں گے ناکام، ریاستی وزیر صحت و فینانس ہریش راؤ کا انٹرویو

محمد ریاض احمد
ریاست تلنگانہ کو چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ نے حقیقت میں ایک سنہری ریاست میں تبدیل کردیا۔ ماضی میں تلنگانہ کو پانی اور بجلی کی قلت کا سامنا رہا کرتا تھا خاص کر دونوں شہروں حیدرآباد و سکندرآباد اور اطراف و اکناف کے عوام پانی کی شدید قلت اور بار بار برقی مسدودی کے نتیجہ میں کافی پریشان رہا کرتے تھے لیکن اب پانی کی قلت اور بجلی کی مسدودی یا بجلی کی سربراہی میں خلل قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ تلنگانہ میں کسان سے لیکر مسلمان سب خوش ہیں۔ مشن بھگیرتا، کالیشورم اور دوسرے آبپاشی پراجکٹس نے ریاست کے عوام کی زندگیوں میں خوشیوں و مسرت کا ایک انقلاب برپا کردیا۔ نتیجہ میں ملک کی دیگر ریاستیں ملک کی سب سے نوجوان ہماری ریاست تلنگانہ کی تقلید کررہی ہیں اور اس کے نقش قدم پر چلنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔ ان خیالات کا اظہار سیاست کو دیئے گئے انٹرویو میں ریاستی وزیر صحت و فینانس مسٹر ہریش راؤ نے کیا۔ 2004 ء سے لے کر 2018 ء کے اسمبلی انتخابات (دو ضمنی انتخابات) میں سدی پیٹ میں کامیابی حاصل کرنے والے ہریش راؤ کو جو چیف منسٹر کے سی آر کے بھانجے بھی ہیں، پارٹی اور حکومت میں پیدا ہونے والے مسئلوں کو حل کرنے والی شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ہریش راؤ کا کہنا تھا کہ ریاست میں تیسری مرتبہ بھی چیف منسٹر چندرشیکھر راؤ کی قیادت میں بی آر ایس (بھارت راشٹرا سمیتی) کو ہی کامیابی حاصل ہوگی اور اس کے سو سے زائد امیدوار کامیاب ہوں گے۔ ہریش راؤ کے مطابق ریاست میں بی آر ایس اور کے سی آر کی لہر ہے۔ ایسے میں فرقہ پرست بی جے پی ناک آؤٹ، کانگریس رن آؤٹ ہوجائے گی اور بی آر ایس کی سنچری ہوگی یعنی چیف منسٹر کی قیادت میں بی آر ایس کو 100 سے زائد نشستوں پر کامیابی ملے گی۔ ہریش راؤ جنھوں نے سدی پیٹ کو ملک کے چنندہ ترقی یافتہ ضلع میں تبدیل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، یہ بھی بتایا کہ چیف منسٹر کے چندرشیکھر راؤ ایک سیکولر لیڈر ہیں، وہ مسلمانوں کے مسائل و مشکلات سے اچھی طرح واقف ہیں۔ گنگا جمنی تہذیب کے علمبردار ہیں، ہندو اور مسلمان ان کی دو آنکھیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ کے سی آر حکومت نے جب ہندو لڑکیوں کے لئے کلیان لکشمی اسکیم ہے اس کے ساتھ ہی مسلم لڑکیوں کیلئے شادی مبارک اسکیم کی رقم میں اضافہ کرکے اسے 25 ہزار روپئے سے 1.16 لاکھ روپئے کردیا (واضح رہے کہ ڈاکٹر وائی ایس راج شیکھر ریڈی حکومت نے مسلم لڑکیوں کی شادی کے لئے 15 ہزار روپئے امداد فراہم کرنی شروع کی اور پھر اس میں اضافہ کرکے 25 ہزار کردیا تھا) لیکن کے سی آر نے اقتدار میں آنے کے بعد شادی مبارک اسکیم کے تحت مسلم لڑکیوں کی شادیوں کیلئے ایک لاکھ 16 ہزار روپئے بطور امداد دینی شروع کی جس سے مسلم لڑکیوں کے فکرمند والدین کو زبردست راحت ملی۔ اس ضمن میں ہریش راؤ نے بتایا کہ شادی مبارک اسکیم کے ذریعہ 268230 لڑکیوں اور ان کے والدین کو فائدہ ہوا اور ضرورت مند مسلم لڑکیوں اور ان کے والدین کو فائدہ پہنچانے کے لئے کے سی آر حکومت نے 2255 کروڑ روپئے خرچ کئے۔ ایک اور سوال کے جواب میں ہریش راؤ نے دعویٰ کیاکہ سارے ملک میں کے سی آر جیسا اقلیت دوست چیف منسٹر اور بی آر ایس حکومت جیسی حکومت نہیں ہے۔ کانگریس صرف مسلمانوں سے زبانی ہمدردیوں کا اظہار کرتی ہے اور آزادی کے 75 برسوں کے دوران کانگریس نے مسلمانوں کو کھلونے دے کر بہلایا ہے۔ اس کی ترقی و خوشحالی کے لئے ٹھوس اقدامات نہیں کئے۔ ملک میں مسلمانوں کی تعلیمی و معاشی پسماندگی کے لئے کانگریس ہی ذمہ دار ہے اور اب گزشتہ 9 یا دس برسوں سے فرقہ پرستوں نے ان کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ ہریش راؤ نے مزید بتایا کہ کے سی آر حکومت نے مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی ترقی کو یقینی بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی۔ اس ضمن میں انھوں نے کانگریس کی زیرقیادت یو پی اے حکومت کی جانب سے سچر کمیٹی، رنگناتھ مشرا کمیٹی بنائی لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کمیٹی اور کمیشن کی سفارشات پر پوری طرح عمل آوری کیوں نہیں کی گئی۔ اس کے برعکس کے سی آر نے مسلمانوں کی تعلیمی ترقی کو یقینی بنانے ریاست میں 204 اقلیتی اقامتی اسکولس اور جونیر کالجس کا قیام عمل میں لایا جس میں 97 ہزار اقلیتی طلباء و طالبات تعلیم حاصل کررہے ہیں جہاں ایک طالب علم پر سالانہ 1.25 لاکھ روپئے خرچ کئے جاتے ہیں۔ اقلیتوں کے لئے اس طرح کے اقامتی اسکولس ملک کی کسی دوسری ریاست میں نہیں دیکھے جاتے۔ ایک استفسار پر ہریش راؤ کا یہ بھی کہنا تھا کہ مرکز کے عدم تعاون کے باوجود کے سی آر حکومت نے ریاست کے ہر ضلع میں گورنمنٹ میڈیکل کالجس قائم کئے ہیں چنانچہ اب ریاست میں سرکاری اور خانگی میڈیکل کالجس کی تعداد 53 ہوگئی ہے جس کے نتیجہ میں میڈیکل سیٹس میں بھی اضافہ ہوکر وہ دس ہزار تک پہنچ گئی ہیں۔ حکومت کے اس اقدام سے اقلیتیں بھرپور استفادہ کررہی ہیں جس کا ثبوت یہ ہے کہ جاریہ سال 745 مسلم لڑکے لڑکیوں کو ایم بی بی ایس میں مفت داخلے حاصل ہوئے ہیں۔ یہ کے سی آر حکومت کا بڑا کارنامہ ہے۔ ہریش راؤ نے مزید بتایا کہ کے سی آر حکومت نے جو فلاحی و بہبودی اسکیمات شروع کی ہیں مثلاً آسرا پنشن، معذورین و بیواؤں کے وظائف کے ساتھ ڈبل بیڈ روم مکانات کی فراہمی ان سب میں اقلیتوں کا بھی پورا پورا خیال رکھا گیا ہے۔ مثال کے طور پر مرکزی سطح پر درج فہرست طبقات و قبائل کے طلبہ کے لئے امبیڈکر ودیا ندھی اسکیم چلائی جاتی ہے جس کے تحت ان طلبہ کو بیرونی یونیورسٹیز میں اعلیٰ تعلیم کیلئے بھیجا جاتا ہے۔ کے سی آر حکومت نے (ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں کی مسلسل کوششوں کے نتیجہ میں) اقلیتی طلباء و طالبات کے لئے ایسی ہی اسکیم ’’چیف منسٹرس اوورسیز اسکالرشپ اسکیم‘‘ کے نام سے شروع کی جس کے تحت تاحال 3200 اقلیتی طلباء و طالبات کو بیرونی ممالک کی باوقار یونیورسٹیز میں داخلے حاصل ہوئے (صرف سیاست کے ہیلت ڈیسک کے ذریعہ 2800 سے زائد طلبہ کی درخواستوں کے ادخال اور داخلوں کو یقینی بنایا گیا)۔ ہریش راؤ نے ایک اور سوال کے جواب میں کہاکہ فی الوقت ریاست میں 10 ہزار آئمہ و مؤذنین کو ماہانہ 5 ہزار روپئے اعزازیہ دیا جارہا ہے۔ انتخابات کے بعد 17 ہزار آئمہ و مؤذنین کو یہ اعزازیہ دیا جائے گا۔ سدی پیٹ کے بارے میں ہریش راؤ کا کہنا تھا کہ حیدرآباد کے عوام سیاسی قائدین اور صحافی سدی پیٹ کا دورہ کرکے وہاں کی ترقی کا مشاہدہ کرسکتے ہیں۔ ترقی کے معاملہ میں سدی پیٹ حیدرآباد کا مقابلہ کررہا ہے۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ بی آر ایس حکومت نے ریاست میں آبی وسائل کے تحفظ پر خصوصی توجہ مرکوز کی چنانچہ 45 ہزار جھیلوں اور تالابوں کو بحال کیا جس کے نتیجہ میں حیدرآباد میں Ground Water میں اضافہ ہوا اور پینے کے پانی کا مسئلہ بھی حل ہوگیا اور مشن بھگیرتا اور مشن کاکتیہ کے ذریعہ گھر گھر پانی پہنچایا گیا۔ انٹرویو کے دوران انھوں نے پرزور انداز میں پیش قیاسی کی کہ 2024 ء کے عام انتخابات میں بی جے پی کو شکست ہونے والی ہے اور ’’یہ بات پکی ہے‘‘۔ اس میں دورائے نہیں کیوں کہ عوام مہنگائی، بیروزگاری، فرقہ پرستی سے تنگ آچکے ہیں۔ انھوں نے یہ بھی یاد دلایا کہ چیف منسٹر کے سی آر نے ریاست میں فرقہ پرستوں پر کڑی نظر رکھی ہے یہی وجہ ہے کہ گزشتہ دس برسوں کے دوران حیدرآباد فسادات اور کرفیو کی لعنتوں سے پاک ہوگیا۔ یہی وجہ ہے کہ ملٹی نیشنل کمپنیاں حیدرآباد کا رُخ کررہی ہیں۔ اس معاملہ میں حیدرآباد کے امن و امان کی صورتحال نے بنگلور کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ان کے خیال میں ریاست تلنگانہ فی الوقت ملک کی وہ واحد ریاست ہے جہاں عیدین و تہوار، دعائیہ اجتماعات سرکاری طور پر منائے جاتے ہیں۔ ہندو مسلم سکھ عیسائی سب کے سب خوش ہیں۔ ہریش راؤ نے ان لوگوں کو دعوت فکر بھی دی جو کہتے ہیں کہ کے سی آر حکومت نے مسلمانوں کی بہبود کیلئے کچھ نہیں کیا۔ اس سلسلہ میں انھوں نے دعویٰ کیاکہ کرناٹک میں مسلم آبادی 78.93ہے لیکن وہاں 2000 کروڑ روپئے کا اقلیتی بجٹ ہے، مہاراشٹرا میں 1.4 کروڑ مسلمان ہیں ان کیلئے صرف 675 کروڑ روپئے کا بجٹ مختص کیا گیا۔ بنگال میں 2 کروڑ 80 لاکھ مسلمان ہیں اور وہاں اقلیتی بجٹ 2100 کروڑ روپئے ہے۔ یوپی میں 4 کروڑ مسلمان ہیں اور ان کی بہبود کے لئے 1700 کروڑ روپئے کا بجٹ ہے لیکن تلنگانہ میں 50 لاکھ مسلمان ہیں اور اقلیتی بجٹ 2200 کروڑ روپئے کا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ حکومت اقلیتوں کے لئے کس قدر سنجیدہ ہے۔ دوران انٹرویو ہریش راؤ نے یاد دلایا کہ 1985 ء میں سدی پیٹ میں کے سی آر نے اقبال مینار تعمیر کروایا اور ایڈیٹر سیاست جناب زاہد علی خاں کے ہاتھوں اس کا افتتاح عمل میں آیا۔ ہریش راؤ نے راہول گاندھی، پرینکا گاندھی، ریونت ریڈی پر شدید تنقید کی اور کہاکہ راہول اور پرینکا بڑے لوگ ہیں، انھیں زمینی حقائق کی کوئی خبر نہیں ہوتی جو لکھ کر دیا جاتا ہے بیچارے وہی پڑھتے ہیں۔