گجرات انتخابات میں سکیولر پارٹیوں کے لئے اقلیتو ں کے ووٹ ایک بڑی توجہہ کا مرکزہیں

,

   

اویسی نے ریاست میں اپنی سابق کے عوامی جلسوسں کے دوران برسراقتدار بی جے پی اور اپوزیشن کانگریس دونوں کو ہی ریاست کے اقلیتوں کو نظر انداز کرنے کا مورد الزام ٹہرایاتھا۔


احمد آباد۔گجرات میں اقلیتوں کے ووٹوں کے لئے ایک ہنگامہ آرائی ہے کیونکہ ریاست کی مسلم آبادی کے لئے2022اسمبلی انتخابات میں ووٹ دینے کے لئے بہت ساری سکیولر پارٹیوں کے اختیارات ہیں۔ اس سے قبل انتخابات میں گجرات میں مسلمان ووٹوں کے لئے سب سے بڑی دعویدار کے طور پر کانگریس کوتسلیم کیاجاتا تھا‘ مگر اس مرتبہ اس مرکزی اپوزیشن پارٹی کو سخت مقابلہ اسی طرح کی جماعتوں سے درپیش ہے جو اپنی طرف اقلیتی رائے دہندوں کو راغب کرسکتی ہیں۔

مذکورہ بھارتیہ جنتا پارٹی جو ریاست میں پچھلے دوہوں کے قریب سے برسراقتدار ہے مسلمانوں رائے دہندوں کے لئے قابل قبول نہیں سمجھی جارہی ہے جو 182ممبرس کے اسمبلی میں دو درجن سے زائد سیٹوں پر اپنی اجارہ داری رکھتے ہیں۔مذکورہ کانگریس کو حیدرآباد کی مرکزیت والی کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (اے ائی ایم ائی ایم) اور دیگر پارٹیوں سے درپیش ہے۔

کانگریس کے ریاستی صدر جگدیش ٹھاکر نے پارٹی کے ساتھ مسلم رائے دہندوں کو برقرار رکھنے کے لئے 2006میں اس وقت کے وزیراعظم من موہن سنگھ کے دئے گئے اس بیان کو دہرایا جس میں انہوں نے کہاتھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق اقلیتوں کاہے۔جولائی میں ٹھاکر کا یہ تبصرہ انہیں بھاری پڑا کیونکہ دائیں بازو تنظیموں نے انہیں ووٹوں کے لئے اؤ بھگت کی سیاست کرنے کا مورد الزام ٹہرایاگیاتھا۔

کانگریس نے بعدمیں دعوی کیاکہ ٹھاکر کے بیان کو تور مروڑ کر پیش کیاگیاہے۔ اے ائی ایم ائی ایم کی سربراہ کرنے والے رکن پارلیمنٹ لوک سبھا اسدالدین اویسی مسلمانوں ووٹوں کو بڑھانے کے لئے مسلسل گجرات کا دورہ کرتے رہے ہیں‘ وہیں عام آدمی پارٹی(اے اے پی) نے بھی اس کمیونٹی کی حمایت حاصل کرنے کے لئے خاموشی کے ساتھ کام کررہی ہے۔

پچھلے2017کے انتخابات تک مسلمانوں کے لئے گجرات میں کوئی دوسی پسند نہیں تھی کیونکہ لڑائی دو پارٹیوں (کانگریس اور بی جے پی) میں ہی تھی۔ اب2022انتخابات کے لئے اور بہت ساری سیاسی پارٹیوں یہاں پر آرہی ہیں۔ایک غیرسیاسی تنظیم میناریٹی کوارڈنیشن کمیٹی کے کنونیر مجاہد نفیس کا کہنا ہے کہ ہمہ رخی انتخابی مقابلہ جمہوریت کے لئے ایک بہتر چیز ہے۔

انہوں نے کہاکہ اس سے گجرات کے مسلمانوں کو معمولی سمجھنے کا رویہ اب ختم ہوجائے گاجو اب تک جاری تھا۔

لوگوں کے پاس مزید مواقع ہوں گے۔ صورتحال یہ ہے کہ ہر پارٹی آکر ہم سے ووٹ مانگے گی۔اویسی نے ریاست میں اپنی سابق کے عوامی جلسوسں کے دوران برسراقتدار بی جے پی اور اپوزیشن کانگریس دونوں کو ہی ریاست کے اقلیتوں کو نظر انداز کرنے کا مورد الزام ٹہرایاتھا۔مذکورہ لوک سبھا ایم پی نے خاص طور پر سے کانگریس کو نشانہ بنایاہے اورکہہ رہے ہیں کہ ملک کی سب سے قدیم پارٹی نے اقلیتوں کو صرف ووٹ بینک کی طرح استعمال کیاہے۔

حالیہ دنوں میں اویسی نے ریاست کا تین مرتبہ دورہ کیاہے‘ جس میں احمد آباد‘ دیہگام اور کچ شامل ہیں جہاں پر بڑی تعداد میں اقلیتی آبادی موجود ہے۔

حال ہی میں کانگریس نے گجرات کے لئے کارگذار صدر کے طور پراپنے رکن اسمبلی قادر پیرزادہ کا تقرر عمل میں لایاہے تاکہ مسلمانوں کے ووٹوں کو بکھرنے سے بچایاجاسکے۔ وزیراعظم نریندرمودی کی آبائی ریاست گجرات میں اسی سال کے آخر میں انتخابات ہونے والے ہیں