گورنر سے اپوزیشن کی نمائندگی

   

چیف منسٹر تلنگانہ کے چندر شیکھر راؤ کی پالیسیوں اور پروگراموں کے خلاف اپوزیشن پارٹیوں نے گورنر ای ایس ایل نرسمہن سے نمائندگی کی ۔ اس نمائندگی کے ذریعہ اپوزیشن کی یہ کوشش رہی کہ نئے سکریٹریٹ اور نئی اسمبلی عمارت کی تعمیر کے لیے چیف منسٹر کے منصوبہ کو روکا جائے ۔ عوام کے پیسوں کو یوں فضول خرچی میں ضائع کرنے سے روکنا ضروری ہے ۔ گورنر نرسمہن سے کی گئی درخواست کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا یہ تو آئندہ کی کارروائی سے پتہ چلے گا ۔ اپوزیشن قائدین نے جن میں کانگریس ، بی جے پی ، تلگو دیشم اور تلنگانہ جنا سمیتی کے قائدین شامل تھے ۔ کے سی آر کے خلاف متحد ہو کر راج بھون پہونچے یہی ایک نمایاں تبدیلی ہے ۔ عوام کے پیسے کا ’ بیجا استعمال ‘ روکنے کے لیے گورنر کو اپنے اختیارات بروے کار لانے کی درخواست کرتے ہوئے اپوزیشن قائدین نے اپنے اس احساس کا مشترکہ اظہار کیا کہ حکمراں پارٹی کو اقتدار ملنے کے بعد من مانی کی اجازت نہیں دی جائے گی ۔ گورنر سے اپوزیشن کی اس نمائندگی کے سیاسی اثرات کا درست اندازہ نہ لگانے والے حکمراں پارٹی قائدین خود کو گمراہ کریں گے ۔

پہلی مرتبہ اپوزیشن نے ایک موضوع پر باہمی اتحاد کا ثبوت دیا ہے تو اس مشترکہ نمائندگی میں کچھ نہ کچھ اہم بات ضرور ہے جس پر چیف منسٹر کے سی آر کو غور کرنا ہوگا ۔ انہیں اپنے فیصلہ پر نظر ثانی کرنے کا موقع ملا ہے تو سکریٹریٹ اور اسمبلی کی نئی عمارتوں کی تعمیر کے منصوبہ کا از سر نو جائزہ لینا چاہئیے ۔ بلا شبہ کے سی آر کی عوامی مقبولیت تلنگانہ ریاست کا موثر سیاسی کارڈ ہے لیکن اس مقبولیت کی حقیقت کو بھی سمجھنا ضروری ہے ۔ کانگریس کے رکن پارلیمنٹ ریونت ریڈی نے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ کی فضول خرچیوں کی طویل فہرست بھی پیش کی ہے ۔ عوام پر ڈالے جانے والے مالیاتی بوجھ کو روکنا ضروری ہے ۔ موجودہ عمارتوں کو منہدم کر کے نئی عمارت بنانا عوام کا ہی خسارہ ہے ۔ کانگریس کے دیگر قائدین جانا ریڈی ، ٹی جیون ریڈی ، ڈی کے ارونا ، بی جے پی ، تلگو دیشم کے صدر ایل وی رمنا اور ٹی جے ایس صدر کودنڈا رام نے ریاست کے عوام کے مفادات میں گورنر سے ملاقات کی ہے تو چیف منسٹر کو اس جانب توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ اپوزیشن پارٹیوں کے وفد کا یہ احساس ہے کہ گورنر کے خصوصی اختیارات ہوتے ہیں اور وہ سکریٹریٹ کی تعمیر کو رکواسکتے ہیں ۔ حیدرآباد میں کل جماعتی گول میز کانفرنس میں بھی سیاسی پارٹیوں نے نئی عمارتوں کی تعمیر کو عوامی رقومات کا بھاری پیمانہ پر ضیاع قرار دیا تھا ۔

چیف منسٹر نے 27 جون کو سکریٹریٹ اور اسمبلی کی نئی عمارتوں کے لیے سنگ بنیاد رکھا تھا ۔ سکریٹریٹ کے لیے 400 کروڑ روپئے اور ارم منزل کو مسمار کر کے نئی اسمبلی عمارت تعمیر کرنے کے لیے 100 کروڑ روپئے خرچ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے ۔ شروع سے ہی اس منصوبہ کی مخالفت کی جارہی ہے ۔ چیف منسٹر 150 سال قدیم ارم منزل کو مسمار کر کے ایک نیا کامپلکس بنانا چاہتے ہیں ۔ اس عمارت کے انہدام سے حیدرآباد کی 150 سال میراث صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی ۔ شہریوں میں یہ سوال پیدا ہورہا ہے کہ اگر چیف منسٹر ہی شہر کی تاریخی عمارتوں کو منہدم کرنے کے منصوبے بنائیں تو پھر 428 سال قدیم شہر حیدرآباد کا مستقبل کیا ہوگا ۔ شہر میں دیگر کئی مسائل ہیں سب سے اہم مسئلہ پینے کے پانی کو روزانہ سربراہ کرنے کا چیف منسٹر نے وعدہ کیا تھا یہ وعدہ جوں کا توں ہے۔ شہر کی سڑکیں تباہ ہیں ، روشنی کم ، کھڈ زیادہ ہیں ، تھوڑی سی بارش پر سڑکیں تالاب بن جاتی ہیں ۔ اس جانب توجہ دینے کے بجائے چیف منسٹر نے فضول اخراجات کو بڑھاوا دینا اپنے لیے فخر سمجھ لیا ہے تو پھر اپوزیشن پارٹیوں کو اس فضول خرچی پر آواز اٹھانے کا حق حاصل ہوگا ۔ لہذا چیف منسٹر کو اس مسئلہ پر اپوزیشن کے احتجاج کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئیے ۔۔