ہرقسم کے حوادث اور آفات کا علاج

   

محمد قیام الدین انصاری کوثرؔ
قرآن کریم کی ایک آیت میں ارشاد ربانی ہے : ’’جو مصیبت تم کو پہونچتی ہے وہ تمہارے اعمال بد کا نتیجہ ہے اور بہت سے بُرے اعمال اﷲ تعالیٰ معاف فرمادیتے ہیں ‘‘۔ (شوریٰ ) اس آیت کریمہ کے بیان میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہٖ و سلم نے فرمایا کہ ’’قسم ہے اُس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے کہ کسی انسان کو جو کسی لکڑی سے معمولی سی خراش لگتی ہے یا قدم کو کہیں لغزش ہوتی ہے یا کسی رگ میں خلش ہوتی ہے یہ سب کسی گُناہ کا اثر ہوتا ہے اور جو گُناہ اﷲ تعالیٰ معاف فرمادیتے ہیں وہ بہت ہیں‘‘۔ تمام مصائب اور پریشانیوں کا اور ہر قسم کے حوادث اور آفات کا اصلی اور حقیقی علاج صرف یہ ہے کہ اﷲ جل شانہ کی طرف رجوع کیا جائے ۔ پچھلے گناہوں سے استغفار اور آئندہ اُن سے پرہیز کرنے کا پختہ ارادہ کرلیں۔ ’’خدا ہی ہے جو بے قراری کے وقت کی دُعا کو سنتا ہے اور بے بسی اور بے کسی کو سختی اور مصیبت کو دور کردیتا ہے ‘‘ ۔(سورۂ نمل )
ویسے جانے انجانے میں ہر روز ہم سے گناہ سرزد ہوتے رہتے ہیں۔ تجربہ شاہد ہے کہ جب انسان اﷲ تعالیٰ سے غافل ہوکر صرف مادّی سامانوں کے پیچھے پڑجاتا ہے تو پریشانیاں اور مصائب بڑھتے ہی چلے جاتے ہیں ۔ بقول شخص ’’مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی‘‘۔ اﷲ تعالیٰ چاہے تو کوئی عذاب ، کوئی مصیبت اور کیسی ہی بڑی سے بڑی آفت ہو اُس کو ٹال سکتا ہے ۔ ایک عرصۂ دراز سے ظالم حُکمرانوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کر رکھا ہے ۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے جیسے تمہارے اعمال بھلے یا بُرے ہوں گے ویسے ہی حُکّام اور اُمراء تم پر مُسلط کردیئے جائیں گے ۔
فرمانِ خداوندی ہے : ’’جب میرے بندے میری اطاعت کرتے ہیں تو اُن کے حُکّام کے قلوب میں اُن کی شفقت و رحمت ڈال دیتا ہوں اور جب میرے بندے میری نافرمانی کرتے ہیں تو میں اُن کے حُکّام کے دل اُن پر سخت کردیتا ہوں ۔ وہ اُن کو ہر طرح کے عذاب چکھاتے رہتے ہیں ‘‘۔ اس لئے تم امراء و حکّام کو بُرا کہنے میں اپنے اوقات ضائع نہ کریں بلکہ سچے دِل سے مالکِ حقیقی کی طرف رُجوع ہوجاؤ اور اپنے اعمال کی اصلاح کی فکر میں لگ جاؤ تاکہ تمہارے سب کام دُرست ہوجائیں۔
انسان کو جو تکالیف اور مصائب اپنے حُکام کے ہاتھوں پہنچتے ہیں وہ اوپر سے آنے والے عذاب ہیں یہ سب کوئی اتفاقی حادثہ نہیں ہوتے بلکہ ایک قانون الٰہی کے تابع انسان کے اعمال کی سزا ہے ۔ اﷲ تعالیٰ ہمارے بالا دست حُکام کے ذریعہ ہمارے مزاج کے خلاف تکلیف دہ معاملات کا ظاہری عذاب ہم پر مُسلط کرکے درحقیقت ہمارا رُخ اپنی طرف پھیرنا چاہتے ہیں تاکہ ہم ہوشیار ہوجائیں اور اپنی اصلاح کرلیں اور دیکھیں کہ ہم سے دانستہ نادانستہ کیا کیا غلطیاں سرزد ہوتی جارہی ہیں اور دیکھیں کہ ہم سے ایسے کونسے اعمال سرزد ہورہے ہیں جو اﷲ تعالیٰ کی ناراضگی کے ہیں۔
ہم دیکھیں کہ مسلمان کثیرتعداد میں مسجدوں کو آباد کررہے ہیں کہ نہیں ؟ نمازوں کو خضوع و خشوع سے ادا کررہے ہیں یا یوں ہی بادل ناخواستہ ادا کرتے جارہے ہیں ۔ حضور اکرم ﷺ کی سنت کے موافق چل رہے ہیں یا اپنی نفسانی خواہشات کے مطابق نئے نئے اُصولوں کو ایجاد کرکے اُن پر ہی زیادہ عمل پیرا تو نہیں ہورہے ہیں ۔ نماز تہجد کی پابندی کررہے ہیں کہ نہیں ۔ ہرمسلمان فرداً فرداً اپنی اپنی اصلاح کرے اور کوئی عمل ایسا نہ کرے جو خدا اور اُس کے رسولؐ سے ہٹ کر ہو ۔ یاد رکھیئے مسلمانوں کیلئے عظمت کا راز صرف قرآن حکیم اور سنت نبوی کے ساتھ وابستگی میں ہے ۔ بتانا مقصود یہ ہے کہ صرف ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے نہ رہیں بلکہ دین اسلام کی اشاعت میں اپنے گناہوں سے تائب ہوکر نیک اور ایک بن کر متحدہ طورپر حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کریں۔ رب سے پہلے رشتہ جوڑلیں پھر راہِ حق میں اُٹھ کھڑے ہوں ۔