ہریانہ ‘ بی جے پی کا ایک اور اتحاد ختم

   

اپنا قدم جو پائیہ عزم و ثبات ہے
بڑھ جائے تو علاجِ غمِ کائنات ہے
بھارتیہ جنتا پارٹی کی جانب سے اکثر و بیشتر دیکھا گیا ہے کہ ریاستوں میں علاقائی جماعتوں سے اتحاد کرتے ہوئے وہاں حکومت تشکیل دیتی ہے یا پھر حکومت میں حصہ داری حاصل کرتی ہے اور پھر بتدریج اس علاقائی جماعت کو ہی ختم کرنے سے گریز نہیں کرتی ۔ ملک بھر کی سیاسی جماعتیں اس حقیقت سے اچھی طرح سے واقف ہیں کیونکہ بی جے پی نے یہ روایت بنالی ہے ۔ وہ مرکز میں اپنے اقتدار کی دھونس جماتے ہوئے علاقائی جماعتوں کو پہلے تو اتحاد پر مجبور کرتی ہے اور پھر بعد میں انہیں اپنے اشاروں پر چلنے کیلئے مجبور کرتی ہے ۔ جب ایسا نہیں ہوتا ہے تو ان جماعتوں کو ہی ہضم کرنے سے گریز نہیں کیا جاتا ۔ ایسی بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں بی جے پی نے محض مرکز میں اپنی حکومت کے دم پر کئی ریاستوں کی حکومتوں کو بیدخل کیا ہے ۔ مہاراشٹرا میں ایسا کیا گیا ‘ کرناٹک میں کیا گیا ‘ مدھیہ پردیش میں کیا گیا تھا ‘ بہار میں کوشش کی گئی تھی ۔ دہلی اور پنجاب میں ایسی کوششیں کی گئی ہیں۔ بی جے پی نے اب اپنی اسی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے ہریانہ میں علاقائی جماعت جے جے پی سے اتحاد کو ختم کرتے ہوئے خود تنہا اپنی حکومت بنالی ہے ۔ جے جے پی نے اپنی پہلی کوشش میں ہریانہ میں 10 نشستوں پر کامیابی حاصل کی تھی اور دشئینت چوٹالہ نے ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ حاصل کرتے ہوئے بی جے پی حکومت کے قیام کی راہ ہموار کی تھی ۔ اب جبکہ جے جے پی اور بی جے پی کے مابین اختلافات پیدا ہونے لگے اور آئندہ پارلیمانی انتخابات میں بھی بی جے پی کو مشکل صورتحال درپیش ہوتی نظر آنے لگی ہے تو اس نے اپنی روایت کو برقرار رکھتے ہوئے اپنی حلیف جماعت کو دروازہ دکھادیا ہے اور اپنی تنہا حکومت قائم کرلی ہے ۔ آج تیز رفتار تبدیلیوں میں چیف منسٹر منوہر لال کھٹر نے اپنی کابینہ کا استعفی پیش کردیا ۔ ان کی بجائے بی جے پی نے نائب سنگھ سائنی کو چیف منسٹر کے عہدہ کا حلف دلایا گیا ہے ۔ منوہر لال کھٹر کابینہ کے بی جے پی وزراء کو بھی حلف دلایا گیا ہے جبکہ جے جے پی کے وزراء کو کابینی عہدوںسے بیدخل کردیا گیا ہے ۔ دشئینت سنگھ چوٹالہ بھی اب ڈپٹی چیف منسٹر نہیں رہے ۔
ملک میں ایسی کئی علاقائی جماعتیں موجود ہیں جنہیں بی جے پی کی اس حکمت عملی اور سازش کا شکارہونا پڑا ہے ۔ کئی علاقائی جماعتیں ایسی ہیں جنہوں نے بی جے پی کے منصوبوں کا اندازہ کرکے خود ہی اپنے راستے بھی تبدیل کئے ہیں۔ پنجاب میں شر ومنی اکالی دل کا بی جے پی سے اتحاد تھا جو ختم ہوگیا ہے ۔ دونوں جماعتوں میں دوریاں پیدا ہوگئی ہیں۔ بی جے پی کی سب سے قدیم اور فطری حلیف کہی جانے والی شیوسینا کو بھی بی جے پی نے نہیںچھوڑا اور جب دونوں جماعتوں میں اختلافات ہوئے اور ادھو ٹھاکرے نے کانگریس و این سی پی کے ساتھ حکومت بنائی تو انہیں بھی نشانہ بنایا گیا ۔ ان کی پارٹی میں پھوٹ ڈالی گئی ۔ جموںو کشمیر میں محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی نے تاریخی غلطی کرتے ہوئے بی جے پی کے ساتھ حکومت بنائی بعد میں انہیں بھی اور ان کی ریاست کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا ۔ بی جے پی نے وہاں بھی اپنا دبدبہ بنالیا ۔ گوا میں پارٹی نے اقلیت میںرہتے ہوئے بھی علاقائی جماعتوں کے ساتھ حکومت بنائی اور اب گوا میں علاقائی جماعتوں کا وجود ہی ختم ہوتا نظر آر ہا ہے ۔ شمال مشرقی ریاستوں میں بھی بی جے پی کی یہی حکمت عملی رہی تھی اور وہاں بھی کئی علاقائی جماعتیں اب اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں مصروف دکھائی دے رہی ہیں۔ ماضی میں تلگودیشم پارٹی نے بھی بی جے پی کے منصوبوںکو سمجھتے ہوئے اس سے اتحاد کو ختم کرلیا تھا تاہم اب آندھرا پردیش میں تلگودیشم سربراہ چندرا بابو نائیڈو اسی غلطی کو دہرانے جا رہے ہیں۔
چیف منسٹر بہار نتیش کمار ایک سے زائد مرتبہ بی جے پی کو تنقیدوں کا نشانہ بناچکے ہیں اور یہ کہہ چکے ہیں کہ حلیف رہتے ہوئے بھی بی جے پی ان کی پارٹی میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کر رہی تھی ۔ ان کی سیاسی مجبوری یا پھر دباؤ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ اس حقیقت کے باوجود بہار میں دوبارہ بی جے پی کا ہاتھ تھام چکے ہیں۔ ملک کی علاقائی جماعتوں کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بی جے پی اس ملک میں ایک جماعتی نظام رائج کرنے کی سمت رواں دواں دکھائی دیتی ہے ۔ اگر جمہوری عمل کی انفرادیت کو برقرار رکھنا ہے اور علاقائی جماعتوں کا وجود برقرار رکھنا ہے تو انہیں بی جے پی کے عزائم اور منصوبوںکو سمجھنا اور اس سے دوری برقرار رکھنا چاہئے ۔