ہریانہ : دشیانت چوٹالہ بی جے پی حکومت کے ڈپٹی چیف منسٹر

,

   

بی جے پی ’جوڑ توڑ‘میں بدستور چمپئن……

مہاراشٹرا میں کانگریس ۔ این سی پی کو اختراعی فیصلہ کا ہنوز موقع، شیوسینا حکومت ممکن

نئی دہلی ؍ ممبئی 25 اکٹوبر (سیاست ڈاٹ کام) بی جے پی نے مابعد انتخابی نتائج سادہ اکثریت سے محروم ہونے پر اپنی کارگر حکمت عملی کے ذریعہ آزاد لیجسلیٹرس اور اپوزیشن کے ایم ایل ایز کو اپنی طرف راغب کرتے ہوئے حکومت تشکیل دینے کا رجحان جاری رکھتے ہوئے آج رات ہریانہ میں اپنے اقتدار کی برقراری کو یقینی بنالیا۔ چنانچہ بی جے پی ہریانہ کی نئی جماعت جنائک جنتا پارٹی کے ساتھ اتحاد کرلیا، جس نے 90 رکنی اسمبلی میں 10 سیٹیں جیتے ہیں۔ بی جے پی نے اِس سمجھوتے کو یقینی بنانے کے لئے جے جے پی لیڈر دشیانت چوٹالہ کو ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ پیش کیا ہے۔ صدر بی جے پی امیت شاہ نے ایک پریس کانفرنس میں چوٹالہ کے ساتھ اعلان کیاکہ چیف منسٹر اُن کی پارٹی سے ہوگا اور ڈپٹی چیف منسٹر کا عہدہ علاقائی پارٹی کو دیا جارہا ہے۔ ذرائع نے کہاکہ موجودہ چیف منسٹر منوہر لعل کھٹر امکان ہے ہفتے کو چندی گڑھ میں منعقد شدنی میٹنگ میں بی جے پی قانون ساز پارٹی کے لیڈر منتخب کرلئے جائیں گے پھر وہ تشکیل حکومت کے لئے گورنر سے رجوع ہوکر دعویداری پیش کریں گے۔ چوٹالہ اُن کے نائب ہونے کا امکان ہے۔ امیت شاہ نے میڈیا کو بتایا کہ ہریانہ کے ووٹروں کے فیصلہ کو دیکھتے ہوئے دونوں پارٹیوں کے قائدین نے فیصلہ کیاکہ بی جے پی اور جے جے پی مل کر حکومت تشکیل دیں گے۔ اُنھوں نے کہاکہ یہ اتحاد عوام کے جذبۂ خط اعتماد کی مطابقت میں ہے۔ پریس کانفرنس میں امیت شاہ اور دشیانت چوٹالہ کے ساتھ چیف منسٹر کھٹر اور دیگر بی جے پی قائدین بھی موجود رہے۔ چوٹالہ نے کہاکہ اُن کی پارٹی کا ماننا ہے کہ ہریانہ میں استحکام کی خاطر یہ اتحاد ضروری تھا۔ سرکردہ بی جے پی قائدین 90 رکنی ہریانہ اسمبلی میں پارٹی کی عددی طاقت گھٹ کر 40 ہوجانے کے ساتھ ہی سادہ اکثریت کے حصول کے لئے سرگرم ہوگئے تھے۔ 7 آزاد ایم ایل ایز نے بھی بی جے پی کی تائید کا عہد کیا ہے۔ چوٹالہ کی حمایت حاصل کرنے بی جے پی کا فیصلہ جاٹ برادری کو متاثر کرنے کی اُس کی کوشش کو اُبھارتا ہے، جو ریاست کی غالب آبادی ہے اور ایسا مانا جاتا ہے کہ پیر کی پولنگ میں اِس برادری نے زیادہ تر زعفرانی جماعت کے خلاف ووٹ دیا ہے۔
٭ ممبئی میں جمعرات کے غیر متوقع نتائج نے چاروں بڑی پارٹیوں بی جے پی، شیوسینا، این سی پی اور کانگریس کو نئی حکومت کی تشکیل کے سلسلہ میں سر جوڑ کر بیٹھنا پڑرہا ہے۔ جمعہ کو مہاراشٹرا کانگریس نے دلچسپ اور اپنی تاریخ کا منفرد اشارہ دیتے ہوئے کہاکہ وہ فرقہ پرست بی جے پی کو اقتدار سے دور رکھنے کے لئے ضرورت پڑے تو شیوسینا زیرقیادت حکومت کی ’حمایت‘ کرسکتی ہے۔ تاہم یہ کام اتنا آسان نہیں کیوں کہ چاروں پارٹیوں میں سب سے کم عدد طاقت کانگریس کی ہے اور اُس کی اتحادی این سی پی نے نسبتاً کم اسمبلی حلقوں میں مقابلہ کرنے کے باوجود اپنی سینئر پارٹنر سے زیادہ نشستیں جیتے ہیں۔ شیوسینا حکومت کی ممکنہ تائید کا اشارہ اِس پس منظر میں ہے کہ گزشتہ روز نتائج کے اعلان کے بعد نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے لیڈر اور سابق ڈپٹی چیف منسٹر چھگن بھوجبل اور سینئر کانگریس ایم پی حسین دلوائی نے یکساں نوعیت کی تجاویز پیش کرتے ہوئے برسر اقتدار بی جے پی کو حکمرانی سے دور رکھنے کے لئے اُس کی وقفہ وقفہ سے ناراض ہونے والی حلیف شیوسینا کو راغب کرلینے پر زور دیا ہے۔ 288 رکنی مہاراشٹرا اسمبلی میں کانگریس ، این سی پی اور اُس کے تمام حلیفوں کے جملہ 117 نشستیں ہیں۔ بی جے پی اور شیوسینا کی مشترکہ طور پر عددی طاقت 161 ہے۔