ہریانہ میں بھی بلڈوزر کارروائیاں

   

نہ تو زمیں کے لئے ہے نہ آسماں کے لئے
تو پھر بتا کہ تُو پیدا ہوا کہاں کے لئے

مرکز اور ملک کی مختلف ریاستوں میں برسر اقتدار بی جے پی کی حکومتیں جہاں دوسروں کو قانون اور دستور کی پابندی کرنے کا درس دیتی ہیں جب ان کے اپنے تعلق سے بات آتی ہے تو وہ طاقت کی زبان استعمال کرنے ہی کو بہتر سمجھتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عدالتوں پر ان حکومتوں کو ایقان نہیں رہ گیا ہے یا پھروہ بتدریج عدالتی اہمیت کو گھٹانا چاہتے ہیں۔ یہ شبہات اس لئے پیدا ہو رہے ہیں کیونکہ ملک کی مختلف ریاستوں میں قائم بی جے پی کی حکومتیں غیر قانونی طریقہ سے بلڈوزر کا استعمال کرتے ہوئے سیاسی طور پر ان سے اتفاق نہ کرنے والوں کی جائیدادو املاک کو تباہ کر رہے ہیں اور انہیں ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کیا جا رہا ہے ۔ یہ سلسلہ اترپردیش سے شروع ہوا تھا جہاں آدتیہ ناتھ کی حکومت نے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف بلڈوزر استعمال کرتے ہوئے ان کی جائیدادوں اور مکانات وغیرہ کو ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کے فیصلہ کیا تھا ۔ اس کے بعد مدھیہ پردیش میں ایسا کیا گیا ۔ پھر دوسری ریاستوں میں بھی ایسا ہی سلسلہ شروع کردیا گیا تھا ۔ دہلی میں بھی ایسی کارروائیاں کی گئی تھیں۔ اب ہریانہ میں بھی یہ سلسلہ شروع کردیا گیا ہے ۔ فرقہ وارانہ فساد کے بعد اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کی دوکانات اور ان کے گھروں کو تباہ کرنے کا سلسلہ مسلسل جاری رکھا جا رہا ہے ۔ ایسے مکانات اور دوکانات کو بھی ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کیا جا رہا ہے جو برسوں سے موجود ہیں۔ انہیں غیر قانونی تعمیرات یا قبضہ جات کا نام دیتے ہوئے یہ کارروائی کی جا رہی ہے ۔ کئی برسوں سے موجود عمارتیں اگر غیر قانونی ہیں تو انہیں ڈھیر کرنے کا طریقہ کار بھی غیر قانونی اختیار کیا جا رہا ہے ۔ انہیں نہ نوٹس دی جا رہی ہے ۔ نہ عدالتی فیصلہ لیا جا رہا ہے ۔ اچانک ہی سرکاری احکام کا حوالہ دیتے ہوئے انہیں منہدم کردیا جا رہا ہے ۔ ایسی کارروائیاں صرف بی جے پی اقتدار والی ریاستوں میں ہو رہی ہیں جن سے واضح ہوجاتا ہے کہ بی جے پی مسلمانوں کی جائیدادو املاک کو منظم انداز میں تباہ کر رہی ہے ۔ قانون اور مروجہ طریقہ کار کو بالائے طاق رکھتے ہوئے صرف طاقت کے بل پر اس طرح کی کارروائیاں انجام دی جا رہی ہیں اور یہ بالکل ہی غلط اور نامناسب طریقہ کار ہے ۔
ایک تاثر یہ بھی عام ہونے لگا ہے کہ بی جے پی مسلمانوں میں ڈر و خوف کی فضاء پیدا کرنے کیلئے اور سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس طرح کی کارروائیاں انجام دے رہی ہے ۔ مسلمان اس ملک میں پہلے ہی انتہائی نامساعد حالات کا شکار ہیں۔ ان کی معیشت دوسرے طبقات سے بہت کمزور ہوگئی ہے ۔ مسلمان معمولی سے کاروبار کرتے ہوئے اپنی گذر بسر کرنے پر مجبور کردئے گئے ہیں۔ ان کے پاس ملازمتیں نہیں ہیں۔ ان کے پاس رہنے کیلئے اپنا خود کا گھر بھی نہیں ہے ۔ اس کے باوجود انہیں نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ سب کا ساتھ ۔ سب کا وکاس اور سب کا وشواس کا نعرہ دینے والی حکومت مسلمانوں کا ساتھ دینے اور انہیں بھی دیگر ابنائے وطن کی طرح مواقع فراہم کرنے کی بجائے ان کیلئے حالات کو مشکل سے مشکل بنانے پر تلی ہوئی ہے ۔ انہیں ضروری سہولیات فراہم کرنے کی بجائے ان کی کمر توڑنے پر اتر آئی ہے۔ اگر کسی نے غیر مجاز تعمیر کی ہے اور کسی نے سرکاری زمین پر ناجائز قبضہ کیا ہوا ہے تو اس کا سدباب کرنے کے قانونی طریقے موجود ہیں۔ انہیں اختیار کرنا حکومت کا فریضہ ہے ۔ طاقت کے بل پر کسی کی دوکان یا مکان کو اچانک ہی ملبہ کے ڈھیر میں تبدیل کردینے کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا ۔ اس طرح کی کارروائیوں کے ذریعہ سے جو ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اس کا واحد مقصد صرف مسلمانوں کو نشانہ بنانا اور ان میں ڈر و خوف کی فضاء پیدا کرنا ہے ۔ اس طرح سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔
بی جے پی کے اعلی قائدین کی جانب سے اس طرح کی کارروائیوں پر مکمل خاموشی اختیار کرتے ہوئے اس کی بالواسطہ حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے ۔ ریاستی حکومتوں کو قانون کے مطابق کام کرنے کی ہدایت دینے کی بجائے ایسے اقدامات کی مدافعت کی جا رہی ہے ۔ اس ملک میں ہزاروں نہیں بلکہ لاکھوں تعمیرات غیر مجاز ہیں۔ خود سرکاری عہدوں پر فائز افراد ہی اس طرح کی تعمیرات کیلئے ذمہ دار ہوتے ہیں ۔ اس کے باوجود محض غریب و محنت کش مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہوئے ایسی کارروائیاں انجام دینا افسوسناک عمل ہے ۔ بی جے پی حکومتوں کو اس روش پر نظر ثانی کرنی چاہئے ۔ سیاسی مفاد کی تکمیل کے اور بھی راستے ہوسکتے ہیں لیکن کسی کو نشانہ بنانا حکومتوں کا شیوہ ہرگز نہیں ہونا چاہئے ۔
عمران خان کو سزاء
پڑوسی ملک پاکستان میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو کرپشن کے ایک مقدمہ میں تین سال کی سزا سنادی گئی ہے اور انہیںپانچ سال کیلئے سرگرم سیاست سے دور کردیا گیا ہے ۔ حالانکہ اس فیصلے کے خلاف بالائی عدالت میں اپیل کی جائے گی تاہم اس فیصلے سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ کس طرح سے سیاسی مقصد براری کیلئے اس مقدمہ کا استحصال کیا گیا اور بالآخر وہی کروایا گیا جس کا منصوبہ تھا ۔ سیاسی اختلافات کہیں بھی نئے نہیں ہیں۔ تاہم سیاسی اختلافات کو اپنے مقاصد کی تکمیل کیلئے اس حد تک پہونچادینے کی مثالیں بہت ہی کم ملتی ہیں ۔ خاص طور پر جمہوریت میںاس طرح کی روش اختیار نہیں کی جانی چاہئیں۔ جس وقت عمران خان وزیر اعظم تھے انہیں تحریک عدم اعتماد کے ذریعہ بیدخل کردیا گیا اور پھر دو کٹر حریف جماعتیں پی پی پی اور مسلم لیگ ( ن ) نے اتحاد کرتے ہوئے اپنی حکومت قائم کرلی ۔ یہ شبہات پہلے ہی سے ظاہر کئے جار ہے تھے کہ عمران خان کو انتخابی میدان سے دور کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے ۔ یہ شبہات اب ایک حیرت انگیز اور اچانک دئے گئے عدالتی فیصلے سے درست بھی ثابت ہوگئے ۔ پاکستان میں جو حالات گذشتہ کچھ عرصہ میں دیکھنے میں آ رہے ہیں وہ افسوسناک کہے جاسکتے ہیں ۔ انتقامی سیاست کا جمہوریت میں کوئی جواز نہیں ہونا چاہئے تاہم پاکستان میں ایسی سیاست عام ہوگئی ہے ۔ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میںہر جماعت سرگرم دکھائی دیتی ہے ۔ انہیں ملک کے مفادات سے زیادہ اپنے سیاسی مفادات عزیز دکھائی دیتے ہیں۔