ہر شخص دوڑتا ہے یہاں بھیڑ کی طرف

,

   

گجرات میں کجریوال کا خوف… مودی کے طوفانی دورے
کانگریس کا بحران… ذمہ دار کون ؟ ؟

رشیدالدین
’’پیروں تلے زمین کھسک جانا ‘‘ یہ محاورہ تو آپ نے سنا ہوگا۔ وزیراعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کا حال ان دنوں اسی محاورہ کی طرح ہے۔ گجرات کی سرزمین سے نکل کر ترقی کرتے ہوئے دہلی کے تخت پر اپنا قبضہ جمایا لیکن آج گجرات سے محرومی کا خوف ستانے لگا ہے ۔ گجرات ماڈل کی دنیا بھر میں تشہیر کی گئی اور سارے ملک میں گجرات ماڈل پر عمل کرنے کا وعدہ کیا گیا لیکن آج وہی گجرات ماڈل ناکامی کی علامت بن چکا ہے۔ مودی اور امیت شاہ نے گجرات کے کارناموں کو کچھ اس طرح شو کیس کیا تھا کہ بی جے پی قیادت نے دونوں کو اپنا قائد تسلیم کرلیا اور دونوں ناقابل چیلنج لیڈر بن گئے۔ کوئی بڑے سے بڑا لیڈر بھی ان دونوں کو چیلنج کرنے کے موقف میں نہیں ہے ، جس کسی نے مودی اور امیت شاہ کو آئینہ دکھانے کی کوشش کی، انہیں باہر کا راستہ دکھادیا گیا۔ تازہ ترین معاملہ نتن گڈکری اور شیوراج سنگھ چوہان کا ہے ، جنہیں پارلیمانی بورڈ سے نکال دیا گیا۔ بی جے پی کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے جب کسی ایک علاقہ کا غلبہ ہوچکا ہے۔ مودی اور امیت شاہ سے قبل ایل کے اڈوانی بھی گجرات کے تھے لیکن اترپردیش سے تعلق رکھنے والے مرلی منوہر جوشی دوسرے نمبر پر رہے۔ 2014 ء کے بعد پارٹی اور حکومت پر گجرات کا عملاً کنٹرول ہوچکا ہے۔ گجرات تو نہیں صرف دو شخصیتوں کے آگے ساری قیادت سرنگوں ہوچکی ہیں۔ جو کوئی بھی خطرہ دکھائی دیا ، اسے سیاسی طور پر معزول کردیا گیا۔ ایم وینکیا نائیڈو بھی متاثرین کی فہرست میں شامل ہیں۔ قانون قدرت ہے کہ جب کبھی ظلم ، جبر ، غرور ، تکبر اور انانیت اپنی حدوں کو پار کرلیتی ہے تو زوال کا آغاز ہوتا ہے ۔ مودی اور امیت شاہ کا زوال خود ان کے گھر یعنی گجرات سے شروع ہوتا دکھائی دے رہا ہے ۔ مودی اور امیت شاہ کے بعد گجرات میں بی جے پی کی عوامی مقبول قیادت کا خاتمہ ہوگیا اور غیر معروف قائدین کو مہروں کی طرح استعمال کرتے ہوئے حکومت چلائی جارہی ہے۔ گجرات حکومت کا ریموٹ کنٹرول دہلی میں ہے۔ گجرات میں بی جے پی اقتدار کو تین دہے مکمل ہوچکے ہیں اور تیسری میعاد کے آغاز تک ریاست میں اپوزیشن کمزور ہوگیا۔ کانگریس کے کمزور ہونے اور احمد پٹیل کے انتقال کے بعد بی جے پی ون مین شو کی طرح کام کرنے لگی۔ مودی اور امیت شاہ اپنی ریاست میں چوتھی مرتبہ اقتدار کا خواب دیکھ رہے تھے کہ اروند کجریوال نے انہیں نیند سے جگادیا۔ اب جبکہ گجرات اسمبلی انتخابات کو تین ماہ باقی ہیں، عام آدمی پارٹی نے دہلی اور پنجاب کے بعد گجرات پر توجہ مبذول کی ہے۔ اروند کجریوال کے دو دوروں نے بی جے پی کے ہوش اڑادیئے اور کجریوال کے وعدوں سے عوام متاثر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جس گجرات ماڈل کا دنیا بھر میں ڈھنڈورا پیٹا گیا ، اس کی جگہ عام آدمی پارٹی کے دہلی اور پنجاب ماڈل نے لے لی ہے ۔ اروند کجریوال کے دورے کامیاب کیا ہوئے مودی اور امیت شاہ نے طوفانی دوروں کا آغاز کردیا۔ وزیراعظم نے گجرات کے لئے 29000 کروڑ کے پراجکٹس کا اعلان کیا ہے ۔ مودی نے 36 ویں نیشنل گیمس کا افتتاح کیا اور انتخابی مہم کی طرح روڈ شو کرتے ہوئے رائے دہندوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی ۔ ملک میں جہاں جہاں کانگریس کمزور ہوئی ، عام آدمی پارٹی نے خود کو متبادل کے طور پر عوام میں نہ صرف پیش کیا بلکہ منظوری حاصل کی۔ دہلی میں دوسری مرتبہ اقتدار کے ذریعہ اروند کجریوال نے سیاست سیکھ لی اور وہ بی جے پی کو شکست دینے کے تمام حربوں سے واقف ہوچکے ہیں۔ بی جے پی نے کرناٹک ، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹرا میں کانگریس حکومتوں کے زوال کی طرح دہلی میں عام آدمی حکومت کو غیر مستحکم ہونے کی کوشش کی لیکن عوامی تائید اور کامیاب فلاحی اسکیمات کے سبب ممکن نہ ہوسکا ۔ ڈپٹی چیف منسٹر منیش سیسوڈیا کو شراب اسکام میں پھنسانے کی کوشش کی گئی لیکن تحقیقاتی ایجنسیوں کو کچھ نہیں ملا۔ منیش سیسوڈیا ملک کے شائد پہلے وزیر تعلیم ہیں، جو روزانہ صبح 7.00 بجے سرکاری اسکولوں کے معائنہ کے لئے نکل پڑتے ہیں۔ عام آدمی پارٹی نے پنجاب میں غیر متوقع کامیابی کے ذریعہ سیاسی پنڈتوں کو حیرت میں ڈال دیا ۔ کجریوال نے گجرات کے عوام سے دہلی اور پنجاب کی طرز پر فلاحی اسکیمات پر وعدہ کرتے ہوئے بی جے پی کی پریشانی کو بڑھا دیا ہے ۔ گجرات اسمبلی الیکشن مودی ۔امیت شاہ کے لئے ایسڈ ٹسٹ کی طرح ہے۔ یہاں کا نتیجہ مرکز میں اس جوڑی کے مستقبل اور کنٹرول کا فیصلہ کرے گا۔ کئی قائدین کو گجرات الیکشن سے امید ہے کہ مودی ۔امیت شاہ کو گھر واپسی کا راستہ دکھانے میں مدد ملے گی۔ اگر گجرات بی جے پی کے ہاتھ سے نکل جائے تو پارٹی اور حکومت میں مخالف آوازوں میں اضافہ ہوجائے گا۔ مودی اور امیت شاہ کے پاس 2002 گجرات فسادات کے علاوہ کوئی کارنامہ نہیں ہے۔ جارحانہ فرقہ پرستی کے ذریعہ اس جوڑی نے ملک کو نفرت کی آگ میں جھونک دیا لیکن عوام کے بنیادی مسائل جوں کا توں برقرار ہیں۔ ظاہر ہے کہ جب پیٹ میں غذا نہ ہو اور انسان بھوک سے تڑپتا رہے تو ایسے میں مذہبی منافرت اور جذباتی نعرے کام نہیں آتے۔ بیروزگاری ، بھوک اور بیماری نے ملک کی نوجوان نسل کو مودی حکومت سے مایوس کردیا ہے ۔ عام آدمی پارٹی کے خوف سے بی جے پی نے انتخابی مہم کا ابھی سے آغاز کردیا ۔ مودی نے دو دن میں پانچ علاقوں کا دورہ کرتے ہوئے گجرات میں ہزاروں کروڑ کی اسکیمات کا اعلان کیا۔ گجرات میں سردار پٹیل کے نام پر ووٹ حاصل کرنے کیلئے جو مجسمہ نصب کیا گیا، وہ عوامی مسائل کے درمیان دھندلا ہوچکا ہے ۔ مجسمہ کی تنصیب شائد آئندہ الیکشن میں بی جے پی کو کوئی فائدہ نہیں پہنچائے گی ۔ پانچ برسوں تک گجرات کو نظر انداز کرنے کے بعد اچانک ہزاروں کروڑ کے اعلانات اور وعدے بی جے پی کے کمزور موقف کو ظاہر کرتے ہیں۔ مرکز کیلئے سارے ملک میں صرف گجرات ہی واحد ریاست دکھائی دے رہی ہے ، دیگر بی جے پی ریاستوں کے مقابلہ گجرات کیلئے پیاکیجس کا اعلان آخر کیوں ؟ دیگر غیر بی جے پی ریاستوں کے لئے گزشتہ 8 برسوں میں کس قدر فنڈس جاری کئے گئے ، اس کی تفصیلات پیش کی جائیں۔ بی جے پی لاکھ کوشش کرلے گجرات میں تبدیلی کے حق میں لہر دکھائی دے رہی ہے ۔ گجرات کو بچانے کیلئے مودی اور امیت شاہ میں سے کسی ایک کو گھر واپسی کرتے ہوئے حکومت کی کمان سنبھالنی پڑے گی ۔ اگر عوامی ناراضگی کا یہی حال رہا تو جس ریاست کے سہارے دہلی تک پہنچے تھے، وہیں سے زوال کا آغاز ہوسکتا ہے۔
کانگریس پارٹی ان دنوں صدارتی الیکشن میں مصروف ہے تو دوسری طرف بھارت جوڑو یاترا کے ذریعہ راہول گاندھی عوام سے ملاقات کر رہے ہیں۔ کانگریس کی قیادت گاندھی خاندان کے علاوہ کسی شخص کو حوالے کرنے کے لئے مسلسل مطالبہ کیا جارہا تھا کیونکہ راہول گاندھی کی صدارت میں پارٹی لوک سبھا انتخابات میں بہتر مظاہرہ میں ناکام رہی۔ راہول کے فیصلوں پر G-23 قائدین نے جس انداز میں مخالفت کی مہم چھیڑی تھی، اس پر سونیا گاندھی نے گاندھی خاندان کے علاوہ کسی شخص کو ذمہ داری دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اشوک گہلوٹ گاندھی خاندان کے وفادار ہیں اور ان کا نام جیسے ہی منظر عام پر آیا ، راجستھان میں چیف منسٹر کے عہدہ کی دوڑ شروع ہوگئی ۔ سچن پائلٹ کو چیف منسٹر بننے سے روکنے کیلئے اشوک گہلوٹ کے وفادار ارکان اسمبلی نے بغاوت کردی۔ ہائی کمان کے خلاف یہ بغاوت گہلوٹ کو مہنگی پڑی اور انہیں صدارت کی دوڑ سے علحدہ کردیا گیا۔ ہائی کمان نے ابتداء میں ڈگ وجئے سنگھ کا نام طئے کیا لیکن لمحہ آخر میں ملک ارجن کھرگے کے نام پر اتفاق ہوا۔ کھرگے راجیہ سبھا میں اپوزیشن قائد ہیں اور کرناٹک میں مجوزہ اسمبلی انتخابات میں کانگریس کو ان کی قیادت میں فائدہ کا امکان ہے ۔ سونیا گاندھی نے کافی غور و خوض کے بعد دلت طبقہ سے تعلق رکھنے والے ملک ارجن کھرگے کو اپنے نمائندہ کے طور پر میدان میں اتارا ہے۔ اگرچہ ششی تھرور بھی الیکشن لڑ رہے ہیں لیکن کھرگے کی کامیابی یقینی سمجھی جارہی ہے ۔ کانگریس میں صدارت کا یہ بحران دراصل G-23 گروپ کے دباؤ کا نتیجہ ہے۔ کانگریس پارٹی پھر ایک بار سیتارام کیسری دور کی طرف واپس ہورہی ہے۔ اگرچہ فیصلے گاندھی خاندان کرے گا لیکن صدارت پر کسی اورکا چہرہ رہے گا۔ مبصرین کا خیال ہے کہ راہول گاندھی کی عجلت پسندی کے نتیجہ میں یہ صورتحال پیدا ہوئی۔ کانگریس پارٹی کی صدارت گاندھی خاندان کے علاوہ کسی اور کے ہاتھ میں ہو تو اس سے بی جے پی کو فائدہ مل سکتا ہے ۔ گاندھی خاندان کے بغیر کانگریس کی قیادت کا تصور ممکن نہیں ہے ۔ کانگریس کے کئی سینئر قائدین کا احساس ہے کہ راہول گاندھی نے صدارت کی پیشکش کو نامنظور کرتے ہوئے لوک سبھا انتخابات سے عین قبل پارٹی کی مشکلات میں اضافہ کردیا ہے۔ ڈاکٹر وسیم بریلوی کا یہ شعر حالات پر صادق آتا ہے ؎
ہر شخص دوڑتا ہے یہاں بھیڑ کی طرف
پھر یہ بھی چاہتا ہے اسے راستہ ملے