ہمارے قائد پیچھے ہٹ گئے۔ کانگریس کی بیماری پر سلمان خورشید کا بیان

,

   

سلمان خورشید نے مزیدکہاکہ کانگریس کو تنہائیو ں کی لہر کا سامنا ہے کیونکہ اپریل مئی میں پارلیمانی شکست کے بعد اپنی شکست کو تسلیم کرنے میں انہیں کافی وقت لگا

کانگریس پارٹی کے سینئر لیڈر سلمان خورش نے کہا ہے کہ لوک سبھا الیکشن میں شکست کے بعد پارٹی صدر کی حیثیت سے راہول گاندھی کی دستبرداری ہر کسی کو الجھن کاشکار بنادیاہے۔

سلمان خورشید نے مزیدکہاکہ کانگریس کو تنہائیو ں کی لہر کا سامنا ہے کیونکہ اپریل مئی میں پارلیمانی شکست کے بعد اپنی شکست کو تسلیم کرنے میں انہیں کافی وقت لگا۔

پیر کے روز اسوسیٹ پریس سے بات کرتے ہوئے خورشید نے بتایا کہ ”ہم اب تک مشترکہ طور پر شکست کی وجوہات کاجائزہ لینے میں ناکام رہے ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ‘ ہمارے لیڈر کا پیچھے ہٹ جانا ہے“۔

سابق مرکزی وزیر نے یہ بھی کہاکہ پارٹی میں راہول گاندھی کی گرفت آج بھی مضبوط ہے۔ خورشید نے کہاکہ ”سونیا گاندھی کی آمد سے جو خلاء تھا وہ دور ہوا ہے مگر یہ اس سے زیادہ اشارہ ہے کہ وہ اپنے آپ کو خلاء کوروکنے کے منتظم کے طور پر دیکھ رہی ہیں۔

میری خواہش ہے ایسا نہ ہو“۔ ہریانہ اور مہارشٹرا اسمبلی انتخابات سے کچھ ہفتوں قبل اپنے بیان میں سینئر لیڈر نے کہاکہ یہ ایسی جدوجہد ہے جو اس بات کااشارہ کرتی ہے کہ ریاستی الیکشن میں جیت کو یقینی بنانا اور اپنے مستقبل کو مستحکم کرنا مشکل نظر آرہا ہے۔

لوک سبھا الیکشن میں 542سیٹوں میں کانگریس نے محض52سیٹوں پر جیت حاصل کی تھی‘ جو ایوان کے 543سیٹوں کا دسواں حصہ بھی نہیں ہے‘ سال2014کے مقابلے نریندر مودی کی زیرقیادت بی جے پی نے 282سے بڑھ کر 303پر جیت حاصل کی تھی۔ اس بڑی شکست کے بعد صدر کے عہدے سے راہول گاندھی نے اپنا استعفیٰ پیش کردیاتھا۔

ان کی والدہ سونیاگاندھی عبوری طور پر صدرکے عہدے پر فائز ہوئیں۔پارٹی کے بڑے قائدین اور ساتھ میں کانگریس پارٹی کے ساتھیوں کی جانب سے اپنا استعفیٰ واپس لینے کے متعلق راہول گاندھی کو سمجھانے کی تمام کوششیں رائیگاں گئی ہیں‘ جس کو اپنی روایتی سیٹ اترپردیش کی امیتھی سے بی جے پی کی سمرتی ایرانی کے ہاتھوں شکست کے بعد کافی تنقیدوں کو انہیں سامنا بھی کرنا پڑا تھا۔

اب بھی وہ کیرالا کے وائناڈلوک سبھا سیٹ کی ایوان میں نمائندگی کررہے ہیں۔ سونیاگاندھی نے 1999میں کانگریس پارٹی کی کمان سنبھالی اس کے بعد 2009اور 2004کے لوک سبھا الیکشن تک ایک کے بعد دیگر کامیابی پارٹی کو دلائی‘ پہلی جیت کے بعد

انہوں نے وزیر اعظم کی کرسی کی پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے ماہر معاشیات اور سابق وزیر فینانس من موہن سنگھ کو وزیراعظم کی کرسی پر فائز کیاتھا۔

اپنی دوسری معیاد میں بدعنوانیوں کے اسکینڈل کے الزامات میں گھیرے کانگریس پارٹی کو 2014میں شکست کاسامنا کرنا پڑا تھا۔

کانگریس پارٹی کی پریشانیوں ابھی کم نہیں ہوئی ہیں کیونکہ وہ 21اکٹوبر کو مقرر ہ مہارشٹرا او رہریانہ اسمبلی الیکشن کے پیش نظر اپنے داخلی امور کو ختم کرنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔

ہفتہ کے روز ہریانہ کانگریس کے سابق صدر اشوک تنوار نے پارٹی کی ابتدائی رکنیت سے استعفیٰ دیدیاہے‘ دوروز قبل پارٹی کی الیکشن کمیٹی سے

انہوں نے یہ الزام لگاتے ہوئے دستبرداری اختیارکرلی تھی کہ مجوزہ ریاستی الیکشن میں اپنے سیاسی مخالفین کو ”ٹکٹیں فروخت“ کی جارہی ہیں۔

مہارشٹرا میں سنجے نروپم نے پارٹی چھوڑنے کی اس وقت دھمکی دی جب پارٹی قیادت نے ان کے سفارش کردہ امیدواروں کو مستردکردیاتھا