ہم بھی ڈاکٹر بنے …

   

… ابن بدر …
دنیا نے تجربات و حوادث کی شکل میں
جو کچھ مجھے دیا ہے وہ لوٹا رہا ہوں میں
ساحر لدھیانوی نے سچ کہاکہ : دنیا میں تجربات و حوادث جو ہوتے ہیں اس سے انسان سیکھتا ہے اور انہی تجربات کی بنیاد پر وہ ہر کام کرتا ہے، اور اچھے و برے کی پہچان ہوتی ہے۔
ہم ایک ادیب اور ساتھ ہی ساتھ شاعر بھی ہیں، شاعری میں ہمیںخداداد صلاحیت ہے بلکہ تلمزالرحمان ہیں۔ ملک و بیرون ملک میں ہم نے بے شمار مشاعرے پڑھے ہیں کیونکہ ہمارے ساتھ ملک بھر کے شعراء مشاعرے پڑھتے ہیں بلکہ مغرب کی نئی اردو بستیوں کے شعراء بھی ہیں جس میں اکثر پروفیسرس اور ڈاکٹرس ہیں۔ جب بھی ہم قومی یا بین الاقوامی مشاعرے میں جاتے ہیں تو ہمیں کوفت سی ہوتی ہے کہ ہمارے نام کے ساتھ ڈاکٹر کیسے لگے گا۔ کیونکہ ہم نے تلنگانہ اوپن اسکول سوسائٹی (TOSS) سے بمشکل ایس ایس سی کا امتحان پاس کیا۔ اور پھر امبیڈکر اوپن یونیورسٹی میں بی اے میں داخلہ لیا مگر ہماری معاشی پریشانیوں نے ہمیں بی اے کرنے نہ دیا۔
کسی صاحب نے ایک شخص سے پوچھا کہ تم کیا پاس ہو ، تو اس نے کہا B.A ، وہ صاحب کہنے لگے پڑھے بھی تو اُلٹا A.B کے بجائے B.A پڑھا۔
اس طرح ایک صاحب نے B.A کا مطلب بیچلراگین Bachlar again اور ایم اے کا مطلب Married Again بتایا۔
ڈاکٹری کے لئے بی اے کرنا پھر ایم اے، اس کے بعد ایم فل اور اس کے بعد انٹرنس دے کر ڈاکٹری میں داخلہ لینا، اور پروفیسروں کے گھر کے چکر لگانا۔ ان کے گھر کا سودا لانا، انہیں وقت بے وقت دعوتوں اور جلسوں میں لے جانا، وقتاً فوقتاً تحفے تحائف دینا۔ یعنی اگر بی اے میں داخلہ لیں تو بی اے کے 3 سال ، ایم اے کے دو سال، ایم فل سے 3 سال اور پی ایچ ڈی کے لئے کم از کم 5 سال … اب ہم عمر کی اس دہلیز پر ہیں جہاں سر کے بال پک گئے ہیں مگر کالک لگاکر اپنے آپ کو جواں بتاتے ہیں۔ 50 کی دہائی میں ہیں ۔ ڈاکٹری ملنے تک کم از کم 13 سال لگ جائیں گے اور ہم 63 سال کے ہوں گے جبکہ حکومت 58 سال میں وظیفہ پر سبکدوش کردیتی ہے۔
کیونکہ ہمارے پاس ملک بھر کے رسائل آتے ہیں کبھی کبھار اخبارات بھی، ہم نے ایک اشتہار دیکھا کہ گھر بیٹھے ڈاکٹر بنیئے۔ ہماری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ ہمیں اپنے خوابوں کی تعبیر ملتی نظر آئی اور جھٹ ہم نے اس نمبر پر کال کیا تو اُدھر سے بڑی میٹھی آواز میں سواگ کیا جارہا ہے۔ ہم ڈاکٹر رائے سے بات کررہے ہیں ۔ آپ کو کس چیز کی اِچھا ہے۔ فلاں کے لئے ایک دبایئے ، فلاں کیلئے 2، اس طرح اس نے دس آپشن دیئے۔ ہم کو صرف ڈاکٹر بننے کے لئے معلومات حاصل کرنا تھا۔ ہم نے وہ نمبر دبایا۔
بہت ہی تفصیل کے ساتھ ہمیں بتایا گیا۔ جو بات ان سے ہوئی آپ بھی سن لیجئے محترم … اگر آپ کو ہمارے یہاں سے ڈاکٹری کرنا ہو تو آپ کو بی پی سی سے انٹر کامیاب ہونا ہے۔ آپ کا کورس تین سال کا ہوگا، فیس قسطوں میں ادا کی جاسکتی ہے۔ آپ اپنے یہاں کے کسی دواخانے سے عملی تجربہ (Practical) کا سرٹیفکیٹ داخل کردیں۔ آپ کو کلاسیس میں شرکت نہیں کرنا ہوگا اور آپ کو کورس مکمل کرنے کے بعد سرٹیفکیٹ دیا جائے گا۔
ہم نے کہا میڈم ! ہم میٹرک پاس ہیں‘ تو انہوں نے کہا :
سر ! آپ فکر نہ کریں جو امیدوار میٹرک پاس ہوتے ہیں ان کے لئے ہمارے پاس پہلے ڈپلوما کورس ہے۔ اور وہ ڈپلوما 6 ماہ کا ہے۔ اس کی علحدہ فیس ہوگی اس کے بعد آپ کو سرٹیفکیٹ کورس میں داخلہ مل جائے گا۔ سر ! آپ اپنا نام، پتہ، فون نمبر اور ای میل اڈریس میل کیجئے۔ ہم کالج کی تمام معلومات آپ کو میل کردیں گے۔ یہ سنہری موقع ہے ۔ آپ کو فیس میں رعایت بھی دی جائے گی۔
ہماری خوشی کی انتہا نہ تھی۔ ہم نے اپنے تمام کوائف بھیج دیئے تو میل پر تمام معلومات آگئیں۔ کیونکہ ہمیں میل کھولنا بھی نہیں آتا۔ وہ تو ہمارے دوست جمیل صاحب کی مہربانی تھی جنہوں نے ای میل بنایا۔ انہی کے ذریعہ ہم نے اس کی تمام تفصیلات حاصل کی۔ اور انہوں نے ایک خوشخبری دی کہ اگر آپ فیس اڈوانس دیں تو 3 سال قبل کا داخلہ دے کر اسی سال آپ کو سرٹیفکیٹ دیا جائے گا۔
اپنے شاگرد وں کو جمع کرکے ہم نے کہا کہ ہم ڈاکٹری کرنے والے ہیں اس کے لئے مالیہ کی ضرورت ہے۔ آپ لوگ اگر برا نہ مانیں تو کچھ رقم جمع کرکے دیں ‘ زندگی باقی رہی تو میں لوٹا دوں گا۔
اور ہم نے ڈپلوما میں داخلہ لیا اور اس کی سند حاصل کی۔ اور پھر سرٹیفکیٹ کورس مکمل کیا ۔ سرٹیفکیٹ بھی مل گیا۔ مگر ہم میں ہمت نہیں ہورہی تھی کہ نام کے سامنے ڈاکٹر لگائیں تو کیا ہوگا۔ ایک دو جگہ لگا بھی دیا تو چند لوگوں نے ہمیں لعن طعن بھی کی کہ کیسے ڈاکٹر … میٹرک فیل میٹرک پاس ڈاکٹر … ہمیں شرمندگی محسوس ہورہی تھی۔ اس لئے ہم نے فیصلہ کیا کہ کسی انجمن یا ادارہ کے ذریعہ تہنیتی تقریب رکھ کر اعلان کریں گے اور اپنی شال پوشی اور گلپوشی کروائیں۔
آخر کار شہر کی ایک انجمن کو ہم نے کہا وہ ہمارے کرم فرما تھے، اور انہوں نے ہماری تہنیتی تقریب کا اعلان اخبارات میں دے دیا۔ اردو محل میں یہ تقریب منعقد ہوئی اور ہم نے اس کالج کے ڈائرکٹر اور ہماری مخالفت کرنے والوں کو بلایا جو اکثر ایسی کتاب (پرچہ) میں لکھتے رہتے ہیں۔
شاندار تہنیتی تقریب تھی، مخالفت کرنے والے بھی پھولوں کا ہار پہنا کر شال اُڑھا کر ہماری تعریف کررہے تھے۔ ہم نوشہ بنے (اس عمر میں ) بیٹھے تھے جس عمر میں ہمیں دادا ، نانا بننا تھا۔
دوست احباب، شاگردوں نے شال پوشی کی اور گلپوشی کی۔ ہمارے ولیمہ میں ہم نے اتنے ہار نہیں پہنے ۔ بڑی خوشگوار تقریب تھی، اردو محل احباب سے بھرا تھا، وہاں یہ اعلان کردیا کہ ہم بھی ڈاکٹر ہیں۔ لوگوں پر جب عقدہ کھلا کہ ہم کوئی پی ایچ ڈی ڈاکٹر نہیں بلکہ میڈیکل ڈاکٹر ہیں …
فیس بُک اور واٹس اَیپ پر تمام تصاویر اَپ لوڈ ہوگئیں، اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں …!ہم ڈاکٹر بن گئے … مگر ہمارے ہی کرم فرماؤں نے جب نام کے سامنے ڈاکٹر لکھا تو اسے نکال دیا گیا۔ بلکہ ایک پرچہ نے تو بہت کچھ لکھا … ہم اب اپنے نام کے ساتھ ڈاکٹر لگانے سے ڈر رہے ہیں۔٭