ہم نے ہر دور کے ہاتھوں کو حنابخشی ہے

   

عثمان شہید ایڈوکیٹ
تاریخ ہند کے زرین اوراق گواہ ہیں کہ ہم نے ہندوستان پر ایک ہزار سال حکومت کی ۔ اس کو اپنا وطن سمجھا ۔ کسی غیر کو ہندوستان پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دی اور نہ قبضہ کرنے کی ۔ خاندان غلامان کے بادشاہ بلبن کے دور حکومت میں جب ہلاکو نے ہندوستان پر حملہ کرنے کی کوشش کی تو بلبن نے اپنے بیٹے کو حکم دیا تھا کہ سروں کے مینار بنادینا لیکن دشمن کو سرحد پار نہ کرنے دینا ۔ ہلاکو نے گھبراکر حملہ نہیں کیا ۔ بتاؤ برادران وطن ایسی مثال بتاؤ ۔ کسی بادشاہ یا راجہ یا نواب نے اپنے بیٹے کو ایسی ہدایت دی تھی ۔ وطن پر قربان ہونے کے لئے کہا تھا ۔ ایک اور مثال دوں انگریزوں کی حکومت تھی میسور کا بادشاہ ٹیپو سلطان سریراہ سلطنت تھا اُس نے اپنے دونوں بیٹوں کو انگریزوں کے پاس رہن ڈال دیا تھا ۔ وطن کے لئے ، اس دیش کے لئے ۔ بعد ازاں جنگ لڑکر انہیں بری کروایا ۔ سری رنگا پٹنم پر حملہ کی خبر سنی تو دسترخوان پر نوالہ چھوڑکر جنگ میں کودپڑا ۔ بالآخر وطن عزیز کی آزادی کی دلہن کو بیاہ کر لانے جام شہادت نوش کیا؟ انگریزوں نے کہا تھا ہم نے آج ہندوستان فتح کرلیا ۔
نواب سراج الدولہ کو اتنا مارا کہ مارکھاکر نواب نے کہا تھا کہ بس کرو ہم خود ہی مرجائیں گے ۔ پیش کرو ایسی کوئی مثال یا قصہ یا کہانی یا کسی داستان سے کہ کسی نے وطن کے گلستاں اور یہاں کی عطربیز ہواؤں کی حفاظت کے لئے ، سرحد کی حفاظت کے لئے ندیوں میں اچھلتی نہروں کی حفاظت کے لئے قربانی دی ہو ۔
کسی اور سے نہیں میں آر ایس ایس کے نیتاؤں سے پوچھتا ہوں ۔ تم نے توہندوستان کی تاریخ خوب پڑھی ہے۔ بھاشن بھی دیئے ہیں ۔ کس بادشاہ نے پہلی مرتبہ مزائیل بناکر مزائیل کا تحفہ ہندوستان کو دیا ۔ تم اس کو دشمن کہتے ہو ؟ کیا تم ٹیپوسلطان یا سراج الدولہ کو واپس لاسکتے ہو۔ وطن کے لئے تم مسلم اتحاد کے لئے ، جان کی قربانی پیش کرنے والوں کی کوئی مثال بتاؤ ۔ آسمان قیادت پر ایک آفتاب ابھرا،وہ بے لوث تھا ،باضمیر تھا ، بے خوف ، بے نڈر ، بہادر ہندو مسلم اتحاد کاعلمبردار تھا ۔ وہ عوام کا بے تاج بادشاہ تھا ۔وطن کے ذرے ذرے سے محبت کرتا تھا ۔ خالق نے اس کو قائد ملت بہادر یارجنگ کہا ۔ اس کی کوئی اولاد نہیں تھی ۔عوام نے چاہ کر اس کو لسان امت کا خطاب دیا۔ بے رحم آسماں نے رنگ بدلا ۔ دو نواسوں کو جن کو انہوں نے گود لیا تھا غیر مسلموں نے انہیں قتل کردیا۔ حکومت نظام کی، پولیس ، قانون ، عدالت ، جیل سب کچھ نظام کاتھا ۔ جس نے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے عثمانیہ دواخانہ تعمیر کیا تھا ، ہائی کورٹ کو فلک بوس کیا ۔ طلبہ کی تعلیم کے لئے عثمانیہ یونیورسٹی اور سٹی کالج بنایا ۔ غرباکے لئے وکٹوریہ ہاسپٹل بنایا ۔ عوام کی سہولت کے لئے نیاپل بنایا ۔ صنعتی ترقی کے لئے اضافہ کرنے نظام شوگر فیکٹری ، اعظم جاہی ملز بنائی ۔ ہندومسلم کو اپنی دو آنکھیں قرار دی۔ انصاف کیا ۔ اتحاد کے فضا کو آراستہ کیا ۔ کبھی فساد ہونے نہیں دیا ۔ نواسوں کے قتل پر مسلمان بے قابو ہوگئے ۔ اپنے قائد کا غم و غصہ ان سے برداشت نہ ہوسکا۔ حکومت ان کی ، اقتدار ان کا اور قتل ان کے بچوں کا ۔ جس کو جو ہتھیار ملا لے کر قائد کے دولت کدہ پر پہنچ گیا ۔ غصہ ایسا تھا کہ پہاڑ ریزہ ریزہ ہوجائے۔ مسز سروجنی نائیڈو اس واقعہ کی عینی شاہد تھیںاور کہتی ہیں کہ میں جوش اور ہوش کا ایسا امتزاج کسی قائد میں نہیں دیکھا۔ انہوں نے ایسے عظیم مجمع کو دفعتاً خاموش کرادیا ۔ ان پر قابو پالیا ۔ ان کے غم و غصہ کو ٹھنڈا کرنا بہادر یارجنگ کا حوصلہ تھا ۔ کوئی فساد ہونے نہیں دیا ۔ شہر کا امن برباد ہونے نہیں دیا ۔ رضاکاروں کا اس وقت وجود نہیں تھا جو بعد کی پیداوار ہے۔ اے آر ایس ایس کا گیت گانے والو، بی جے پی کی ڈفلی بجانے والو ، فلم رضاکار بنانے والو ، ایک بہادر یارجنگ پر بھی بناؤ ۔ تاریخ نے ایسا لیڈر شائد ہی پیدا کیا ہو ۔ پھر بھی یہ الزام کہ نظام دکن فرقہ پرست تھے ۔ صرف ہندومسلم اتحاد کو متاثر کرنے کے لئے گڑھا گیا ہے تاکہ 2024 میں ایک مرتبہ پھر اقتدار حاصل کیا جاسکے ۔ ورنہ آج بھی ایک گاؤں میں مسلم نوجوان ایک مندر کی حفاظت کرتے نظر آتے ہیں۔ مسلم ہندو مریضوں کو خون دیتے ہیں۔ گاؤ کشی پر پابندی اکبر اعظم نے عائد کی تھی ۔ اورنگ زیب نے بھی عائد کی ۔ نظام دکن نے اس کو برقرار رکھا تاکہ اتحاد کا تار ٹوٹنے نہ پائے ۔ 1962میں چینی حملہ کے وقت دفاع کے لئے ملک کو پانچ من سیاہ سونا تحفہ میں دیا ۔ بتاؤ کسی راجہ نے دیا ۔ کسی مندر سے ملا ۔ پھر بھی کہتے ہو یہ وطن پرست بادشاہ فرقہ پرست تھا ۔ شرم تم کو مگر نہیں آتی ۔میں تم نے پوچھتا ہوں کیا کسی مسلمان نے فوج سے غداری کی ۔ فوجی راز پاکستان کو بیچے ۔ جنگ سے راہ فرار اختیار کی ۔ ارے یہ سب چھوڑو کیا کبھی کسی مسلم جج نے رشوت لی۔ بنگلہ دیش کے جنم لیتے وقت کئی ایئر فورس کے سپاہیوں نے صابن کھاکر لوز موشنس کو دعوت دی تاکہ میڈیکل گرانٹ پر جنگ سے بچ جائیں ۔ میں خود بھی ایئر فورس میں سارجنٹ تھا ۔ جہاں لیفٹنٹ رائے نے کہا تھا کہ عثمان تم پاکستان کی جاسوسی کے لئے آئے ہو ۔ یہ بات 1971کی ہے۔ اس کے بعد میں نے ایئر فورس چھوڑدیا ۔ دوسری طرف حوالدار حمید نے ایسا کام کیا جو رہتی دنیا تک یاد رہے گا ۔ اس نے کھیم کرن میں پاکستانی ٹینکوں کو تباہ و برباد کردیا۔ کس کے لئے اپنی جان دے دی ۔ صرف وطن عزیز کے لئے اور اس کی قوم پر عتاب؟ اس کی نسل سے دشمنی ؟ کیا ظلم ہے ۔ مہاتما گاندھی کو مہاتما محمد علی نے کہا ۔ مہاتما گاندھی ، مسز اندرا گاندھی ، راجیو گاندھی ان لیڈروں کو ہم نے قتل نہیں کیا پھر بھی ہماری وفاداری پر شک ؎
ہم جو وفادار نہیں ، تم بھی تو دلدار نہیں
لودھی خاندان ، خلجی خاندان ، خاندان غلامان ، مغلیہ خاندان ، آصف جاہی سلطنت، قطب شاہی سلاطین ہوں یا کوئی اور بادشاہ کسی نے رعایا کی ملکیت پر بلڈوزر چلایا ۔ عبادت گاہیں گرائیں ، مندر تڑائے یا کسی کو ملک بدر کیا ۔پھر یہ کیسی عدالت ہے ؟ کیسا انصاف ہے ؟ کیسا قانون ہے ؟ پروفیسر تاراچند نے اپنی مشہور تاریخ میں لکھا ہے کہ فاتح سندھ محمد بن قاسم نے سندھ فتح کرنے کے بعد جو پہلا فرمان جاری کیا وہ یہ تھا کہ جو کل تک مندر میں پجاری تھا وہ آج بھی رہے گا ۔ خواتین و حضرات کی حفاظت کا ذمہ محمد بن قاسم کا فریضہ ہے ۔ وہ فاتح تھا ۔ سیاہ و سفید کا مالک تھا۔ لیکن اس نے انصاف کیا۔ جمہوریت کا ڈھول نہیں پیٹا ۔ ووٹ حاصل نہیں کئے۔
آزادی کے بعدپچاس سال ہندوستان کی سیکولر جماعت کے ہاتھوں مہندی لگائی گئی۔ اس کے چہرے پر اقتدار کا غازہ لگایا پھر بھی اقتدار ہمارا ، کل ہمارا ، خون ہمارا ، ہماری مائیں بیوہ ، ہماری بہنوں کا سہاگ اجڑرہا ہے۔ کیا قصور کیا ہے انہوں نے؟ کیا ظلم کیا ؟ کس پر کیا ؟ ملک کا وزیر اعظیم مسٹر مودی اور کئی ایسے نام نہاد لیڈر یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو چلے جاؤ۔ مسٹر مودی ہم جان دینے تیار ہیں لیکن دوسری ہجرت منظور نہیں ۔ ارے کون خواجہ غریب النواؒز کی بارگاہ کو چھوڑکر جائے گا ۔کون بختیار کاکی ؒکو خدا حافظ کہے گا۔ کس میں اتنا جگر ہے نظام الدین اولیاء کی درگاہ سے منہ موڑلے۔ بابا یوسف شریف صاحب ، جہانگیر پیراں ، بابا شرف الدین جیسے بزرگان دین کو بھول جائے ۔ یہاں ہماری آنول گڑھی ہے۔ جئیں گے یہیں ۔ مریں گے بھی یہیں ۔ ہم ہندوستان کو چھوڑ کرکہیں جانے والے نہیں ۔ یہ ہمارا اٹل اور آخری فیصلہ ہے۔