ہندوتوا ، ہندوازم ، گاندھی جی اور گوڈسے

   

رام پنیانی
سابق مرکزی وزیر سلمان خورشید کا شمارکانگریس کے ممتاز قائدین میں ہوتا ہے۔ وہ سپریم کورٹ کے ایک جانے مانے وکیل ہیں۔ حال ہی میں ان کی کتاب ’’سن رائز اوور ایودھیا : نیشن ووڈ اِن پریزنٹ ٹائمس‘‘ منظر عام پر آئی ہے اور کتاب اجرائی کے ساتھ ہی تنازعہ کا شکار بھی ہوگئی۔ سپریم کورٹ اور دیگر عدالتوں میں اس کتاب پر پابندی کیلئے عرضیاں بھی داخل کی گئیں لیکن ان عرضیوں کو عدالتوں نے مسترد کردیا۔ اس کتاب میں سلمان خورشید نے شہادت بابری مسجد اور پھر اس پر رام مندر کی تعمیر سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کی ہے اور بتایا کہ کس طرح سپریم کورٹ کے فیصلے نے تاریخ بدل کر رکھ دی۔ انہوں نے اپنی کتاب میں لکھا ’’سپریم کورٹ نے رام مندر کی تعمیر کی راہ ہموار کی ہے، اگر ایک مسجد سے محرومی دھرم کا تحفظ ہے اور ایک مندر کا قیام مذہب و عقیدے کی آزادی ہے تب ہم تمام مل کر دستور میں اپنے یقین پیہم کا جشن منا سکتے ہیں۔ سلمان خورشید نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ ہندوازم ایک عظیم و رواداری کا حامل مذہب ہے جبکہ ہندوتوا ایک ایسی سیاست ہے جو آئی ایس آئی ایس اور بوکوحرام سے مماثلت رکھتی ہے۔ اپنی کتاب میں سلمان خورشید نے بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی مقدمہ میں سپریم کورٹ کے فیصلے کی مدافعت کی، حالانکہ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ خود عدالت عظمی نے اس بات کو تسلیم کیا کہ 1949ء میں جس جابرانہ انداز میں بابری مسجد میں رام للا کی مورتیاں رکھی گئی تھیں ، وہ ایک مجرمانہ فعل تھا۔ عدالت نے یہ بھی کہا تھا کہ بابری مسجد کی شہادت خود ایک جرم تھا لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس نے ان دونوں جرائم کی پاداش میں کسی کو بھی سزا نہیں دی (عدالت کا یہ ماننا کہ بابری مسجد کو شہید کیا گیا،جب عدالت یہ کہتی ہے کہ بابری مسجد کی شہادت ایک مجرمانہ فعل تھا تو پھر اس مجرمانہ فعل کو انجام دینے والے مجرمین اب تک آزاد کیوں ہیں؟ انہیں عدالتوں نے سزائیں کیوں نہیں سنائی؟) ۔ جہاں تک شہادت بابری مسجد کے مجرمین کا سوال ہے، اس کے لئے لبرہان کمیشن کی رپورٹ کو سنجیدگی سے لینا ضروری ہے۔ اگر لبرہان کمیشن کی رپورٹ کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے تب ہی بی جے پی کی اعلیٰ قیادت کو سلاخوں کے پیچھے ڈھکیلا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف سلمان خورشید کی یہ جو کتاب آئی ہے وہ دراصل امن کا ماحول بنانے کی ایک کوشش ہے اور انہوں نے بابری مسجد ۔ رام جنم بھومی مقدمہ میں عدالت کے فیصلے پر نرم رویہ اختیار کیا حالانکہ یہی عدالت ہے جس نے خاطیوں کو بری کردیا۔ سلمان خورشید کی کتاب میں صرف مختصر سے انداز میں ہندوتوا کے رجحان کا جائزہ بھی لیا گیا اور ہندوتوا کا دنیا بھر میں سرگرم دوسری بنیاد پرست تنظیموں سے تقابل کیا گیا۔ یہی ان کی غلطی تھی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ہمارے ملک کی بنیاد پرست تنظیموں نے آسمان سر پر اٹھا لیا، برہمی کا اظہار کیا۔ نینی تال میں واقع ان کی قیام گاہ پر گولیاں چلائی گئیں اور ہندوتوا سیاست کے حامیوں نے سلمان خورشید کے مکان کو آگ لگادی۔ ہندوتوا فورسیس نے سلمان خورشید کی کتاب میں درج ہندوتوا سے متعلق بیان کو ہندوازم کی توہین کے طور پر پیش کیا۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ سلمان خورشید نے اپنی کتاب میں ہندوازم کی تعریف کی ہے اور ہندوتوا کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ویسے بھی ہندوتوا ہندوازم کے بھیس میں یقینا ایک سیاست ہی ہے۔ ان ہی خطوط پر راہول گاندھی نے بھی ہندوازم اور ہندوتوا کے درمیان فرق واضح کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوازم ایک مذہب ہے اور ہندوتوا ایک سیاست ہے۔ اسلام ایک مذہب ہے اور بوکوحرام اور آئی ایس آئی ایس جیسے گروہ اسلام کے نام پر بنائے گئے سیاسی گروہ ہیں۔ اصل میں لوگوں کے ذہن میں یہ بٹھا دیا گیا ہے کہ ہندوتوا ہندو مذہب کا ہم معنی ہے۔ اس سے ایسا لگتا ہے کہ نسلی منافرت پر مبنی قوم پرستوں کی یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔ اس کے علاوہ ساورکر کی ہشیاری بھی ہے جس نے لفظ ’’ہندو‘‘ کو ’’ہندوتوا‘‘ کا ایک حصہ بنایا۔ ہندوتوا خود ایک سیاسی نظریہ ہے جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک عام ہندو کا یہ احساس ہوتا ہے کہ اگر ہندوتوا پر تنقید کی جارہی ہے تو اس کا مطلب اس پر تنقید کی جارہی ہے۔ ساورکر بابائے ہندو قوم پرستی ہے۔ ان کیلئے قومی شناخت تین ستونوں پر قائم ہے۔ جغرافیائی اتحاد، نسلی خصوصیات اور مشترکہ تہذیب۔ ساورکر ایک ہندو کے مذہب کی اہمیت کو یہ دعویٰ کرتے ہوئے گھٹاتے ہیں کہ ہندوازم صرف ہندومت کا ایک حصہ ہے۔ (ہندوتوا :صفحہ نمبر 81) جہاں تک ہندوازم کا سوال ہے اسے سمجھنا ایک پیچیدہ عمل ہے، کیونکہ اس مذہب میں ایک پیغمبر یا ایک مقدس کتاب یا ایک خدا نہیں ہے۔ ہندوازم بلاشک و شبہ والا مذہب ہے۔ اس سلسلے میں پنڈت نہرو نے خوب کہا ہے۔ ہندوازم ایک مبہم بے شکل عقیدہ ہے جس کے کئی رخ ہیں اور تمام لوگوں کیلئے تمام چیزیں اس میں پائی جاتی ہیں۔ اس میں موجودہ شکل اور یہاں تک کہ سابقہ شکل میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ اس نے کئی عقائد اور کئی اعمال کو قبول کیا جن میں چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا عمل شامل ہے۔ یہ ایسے اعمال ہے، جو ایک دوسرے سے متضاد دکھائی دیتے ہیں۔ دوسری طرف مہاتما گاندھی نے ہندوازم کی مدافعت کی ہے اور کہا ہے کہ اس کا جو اصل جذبہ ہے وہ ’’جیو اور جینے دو‘‘ کا جذبہ ہے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کہا تھا کہ اگر مجھ سے کہا جائے کہ ہندو عقیدہ کی تعریف کریں تو میں صرف یہی کہوں گا کہ ہندو مذہب عدم تشدد کی تعلیم دیتا ہے اور عدم تشدد کے طریقوں کے ذریعہ سچائی کی تلاش کرتا ہے۔ ایک شخص خدا میں یقین نہیں رکھ سکتا، پھر بھی وہ خود کو ہندو کہلا سکتا ہے۔ ہندوازم دراصل سچائی کی بے تکان تلاش ہے اور گاندھی کیلئے ہندوازم ایک رواداری ہے۔ اس کے متضاد ساورکر کے یہاں ایک سیاسی موقف پایا جاتا ہے جس پر ہندو فرقہ واریت کی بنیاد ہے۔ وہ ایک ہندو کی تعریف اس طرح کرتا ہے کہ جو کوئی سندھو سے لے کر دیگر دریاؤں تک پھیلی زمین کو اپنے آباء و اجداد کی زمین اور وہ بھی مقدس زمین تصور کرتا ہے وہ ہندو ہے۔ دراصل ایسے لوگوں کا ایجنڈہ یہی ہے کہ قدیم ہندو تہذیب کو اُجاگر کرتے ہوئے اس سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی جائے۔ جبکہ ماضی میں اس مذہب میں ذات پات اور جنس کے مطابق معاشرتی زمرہ بندی کو اہمیت حاصل تھی۔ ہندوتوا کی یہ طاقتیں اسلام اور عیسائیت کو بیرونی مذاہب قرار دے کر اسے بدنام کرتی رہی ہیں اور اس کے لئے گائے، رام مندر، لو جہاد وغیرہ جیسے مسائل کو استعمال کرکے ہندو جذبات بھڑکائے گئے اور یہ کہا گیا کہ مسلمانوں کی بڑھتی آبادی سے ہندوؤں کو خطرات لاحق ہوجائیں گے۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا کہ عیسائی مشنریز کے خیراتی و فلاحی کام بھی ہندوؤں کیلئے خطرات پیدا کریں گے۔ ہندوتوا کے حامیوں کا یہ ایجنڈہ ہے کہ ایسی سیاست کھیلی جائے جس سے معاشرہ کے اعلیٰ ذات یا اعلیٰ طبقات کو فائدہ پہنچے اور کمزور و دبے کچلے طبقات سے صرف زبانی ہمدردی کی جائے۔ فرقہ پرستوں کیلئے ہندوتوا ایک سیاسی حکمت عملی کا حصہ ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ یہ عدم رواداری اور تشدد کو مذہب کے نام پر بڑھاوا دیتا ہے اور ہندو دیوی دیوتاؤں کے نام پر اپنے مفادات کی تکمیل کرتا ہے۔ دلتوں ، آدی واسیوں سے متعلق ہندوتوا فورسیس کا جو ایجنڈہ ہے، وہ بھی یہی ہے کہ جس طرح ماضی میں معاشرتی زمرہ بندی ذات پات کی بنیاد پر کی جاتی رہی، اسی طرح اب بھی اس ترقی یافتہ دور میں اس کا سلسلہ جاری ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ ہم ہندوتوا کے تخریبی نظریہ کا اس کا نام لئے بناء کیسے مقابلہ کرسکتے ہیں؟کیا ہم ہندوتوا کے لفظ پر اور اس کی تخریبی سیاست سے مقابلہ کے بارے میں خاموشی اختیار کرسکتے ہیں؟ کیا ہم ہندوؤں کو یہ بتا سکتے ہیں کہ ہندوازم وہ ہے جس کی گاندھی جی تائید کرتے ہیں اور نہرو ستائش کرتے ہیں۔ بہرحال یہ وقت ہے کہ روشن خیال گاندھی کے ہندوازم اور تنگ ذہن گوڈسے اینڈ کمپنی کے ہندوتوا کے درمیان فرق بتایا جائے اور فرقہ پرستوں کے نسلی ایجنڈہ کا مقابلہ کیا جائے۔