ہند۔ چین کشیدگی میں کمی کی کوشش

   

ہندوستان اور چین کے مابین گذشتہ مہینے سے جاری کشیدگی میں ایسا لگتا ہے کہ بتدریج کمی ہونے لگی ہے ۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق مشرقی لداخ کے دو تا تین مقامات پر دونوں ممالک کی افواج کے درمیان ٹکراو کی صورتحال ختم ہوگئی ہے اور یہاں بتدریج سکون بحال ہو رہا ہے ۔ دونوں ممالک کے مابین سرحدی تنازعہ کافی وقت سے چلا آ رہا ہے ۔ چین وقفہ وقفہ سے سرحدات پر در اندازی کرتا ہے اور حد تو یہ ہے کہ ہندوستان کی سرحد کے اندر ہندوستانی افواج کی نقل و حرکت کو روکنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ گذشتہ دنوں میں جو تازہ ترین تصاویر سامنے آئی تھیں ان کے مطابق چین نے لداخ میں ایک فضائی اڈہ تک تعمیر کرنے میں مبینہ طو رپر کامیابی حاصل کرلی ہے اور وہ ہندوستان کی سرزمین پر اپنا تسلط برقرار رکھے ہوئے ہے ۔ وقفہ وقفہ سے سرحدات پر کشیدگی ہوتی ہے ۔ ہندوستانی افواج کی بھی نقل و حرکت ہوتی ہے اور پھر دونوں ممالک کے مابین بات چیت کا دور شروع ہوتا ہے ۔ بتدریج کشیدگی میں کمی آتی ہے اور پھر حالات معمول پر آجاتے ہیں۔ یہ سب کچھ ایک دو مرتبہ نہیں بلکہ کئی مرتبہ ہوا ہے ۔ ہر مرتبہ لگے بندھے انداز میں مسئلہ کی یکسوئی ہوتی ہے اور پھر کچھ عرصہ بعد چین دوبارہ اپنے عزائم کی تکمیل کیلئے سابقہ حرکتوں کو دہراتا ہے ۔ اس صورتحال میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ چین کے ساتھ حکومت کا موقف اتنا سخت نہیں ہوتا جتنا ہونا چاہئے ۔ حالانکہ دعوے تو بلند بانگ کئے جاتے ہیں اور اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی باتیں ہوتی ہیں لیکن عملا ایسا ہوتا نہیں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ چین کے عزائم بلند ہوتے جا رہے ہیں اور وہ اپنی حرکتوں سے باز آنے کو تیار نہیں ہے ۔ چین نے تازہ ترین جارحیت ایسے وقت میں کی ہے جبکہ ساری دنیا اور خاص طور پر ہندوستان بھی کورونا وائرس کے خلاف آزمائشی دور سے گذر رہا ہے ۔ ممکنہ حد تک اس پر قابو پانے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں اور ایسے میں چین سرحدات پر بے چینی پیدا کرتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل کرنا چاہتا ہے ۔ حالانکہ چین کو ان مقاصد میں کامیابی نہیں ملی ہے لیکن اس کے عزائم تو ضرور واضح ہوگئے ہیں ۔
اندرون ملک حکومت اور اس کے ذمہ داران یہ بیانات دینے میں ایک دوسرے پر سبقت لیجانے کی کوشش کرتے ہیں کہ بی جے پی حکومت میں ملک کی سرحدات بالکل محفوظ ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ مرکز میں چاہے بی جے پی کی حکومت ہو یا پھر کانگریس کی حکومت ہو یا پھر انتہائی کمزور سمجھی جانے والی تیسرے محاذ کی حکومتیں بھی قائم تھیں۔ اس وقت بھی ملک کی سرحدات محفوظ ہی رہیں۔ ملک کے عوام اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ سرحدات کی حفاظت کسی حکومت کی وجہ سے نہیں ہماری بہادر ‘ دلیر اور جانباز فوج کی وجہ سے ہے ۔ ہماری فوج ہی ہے جس کے بل پر حکومتیں بلند بانگ دعوے کرتی ہیں۔ ایسے میں حکومتوں کو اس کا کریڈٹ لینے کی بجائے ہماری فوج کو یہ کریڈٹ دینے کی ضرورت ہے ۔ سیاسی طور پر جو اقدامات کئے جانے چاہئیں حکومت کو ان پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ چین کی حکومت کے ساتھ پوری ذمہ داری اور استحکام کے ساتھ یہ مسئلہ حل کیا جانا چاہئے ۔ صرف دعوے کرتے ہوئے یا پھر حقائق کو مختلف انداز میں پیش کرتے ہوئے عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش نہیں ہونی چاہئے ۔ اس طرح کی کوششوں سے سیاسی فائدہ شائد حاصل کر بھی لیا جاسکتا ہے لیکن ملک کے مفادات متاثر ہونے کے اندیشے ضرور برقرار رہتے ہیں اور ان اندیشوں کو دور کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے جو صرف دعووں سے پوری نہیں ہوسکتی ۔ اس کیلئے ایک سخت موقف اختیار کرتے ہوئے ہماری سرحدات کی خلاف ورزی کرنے والوں کو منہ توڑ جواب دینا چاہئے ۔
اب جو مسئلہ لداخ اور دوسرے مقام پر پیدا ہوا تھا اس کو تو بات چیت کے ذریعہ حل کرنے کی کوشش کامیاب ہوتی نظر آر ہی ہے لیکن اس طرح کے مسئلہ کو وقتی طور پر حل کرنے میں ہی عافیت نہیں ہے ۔ اس کا مستقل حل دریافت کرنے کی ضرورت ہے ۔ چین پر پورے استحکام سے یہ واضح کرنا ہوگا کہ ہندوستان نے کبھی اپنی سرحدات پر حملوں کو برداشت نہیں کیا ہے اور نہ ہی وہ آئندہ اپنے سرحدات کی کسی بھی طرح کی خلاف ورزی برداشت نہیں کریگا ۔ جب تک چین کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر جواب نہیں دیا جائیگا اس وقت تک نہیںلگتا کہ چین اپنی حرکتوں سے باز آئیگا ۔ مرکزی حکومت کو اس معاملہ پر بیان بازیوں یا محض دعووں سے گریز کرکے عملا اقدامات کرنے کی شدید ضرورت ہے ۔