ہند ۔ چین سرحدی کشیدگی

   

ہندوستان اور چین کے درمیان کشیدگی میں اضافہ کے بعد وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے مشیر اجیت ڈول ، چیف آف ڈیفنس اسٹاف جنرل بپن راوت اور وزیر خارجہ جئے شنکر سے ہنگامی مشاورت کی ۔ یہ تین عہدیداروں کی وہی ٹیم ہے جس نے 2017 میں ڈوکلم ہند ۔ چین جھڑپوں کے درمیان بھی مشاورتی طور پر کوششیں کر کے مسئلہ کو روک دیا تھا ۔ چین کی جانب سے اکثر در اندازی کی کوششیں کی جاتی رہی ہیں ۔ لداخ ہو یا سکم کے علاقہ میں چین کی فوج کی پیشرفت قابل اعتراض ہوتی ہے ۔ 2017 میں 73 دن تک ہند ۔ چین کشیدگی کو کم کرنے میں اہم رول ادا کرنے والے فوجی عہدیداروں کو اس بار بھی سرگرم کردیا گیا ہے ۔ لداخ میں چین کی جانب سے کی جانے والی در اندازی کو روکنے کے لیے ہندوستانی فوج نے باہمی احترام کا طریقہ اختیار کیا ہے ۔ ایل اے سی یا حقیقی خطہ قبضہ پر صورتحال کو مزید کشیدہ بنانا اس وقت کسی بھی ملک کے لیے ٹھیک نہیں ہے ۔ ساری دنیا کورونا وائرس سے پریشان ہے ۔ معاشی اور تباہی انسانی جانوں کے اتلاف نے کئی ممالک کو مشکلات میں ڈالدیا ہے ۔ ایسے میں چین ایک سرد جنگ کے دور سے گذر رہا ہے ۔ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے لیے اس پر تنقیدیں ہورہی ہیں ۔ خاص کر صدر امریکہ ڈونالڈ ٹرمپ نے کورونا کو چینی وائرس قرار دیتے ہوئے چین کے خلاف اپنا موقف سخت کیا ہے ۔ اس لیے صدر چین نے اس سردجنگ کے دوران بڑی جنگ چھڑنے کے اندیشے ظاہر کرتے ہوئے اپنی فوج کو جنگی تیاری کرنے کا حکم دیا ۔ صدر چین کا یہ حکم تشویشناک ہے ۔ چین کو ساری دنیا کی بڑی طاقتوں کی تنقیدوں اور الزامات کا سامنا ہے وہ اس صورتحال سے باہر نکلنے کی کوشش کرتے دکھائی دے رہا ہے ۔

اس دوران لداخ یا ہندوستان کی سرحد پر چینی افواج کی سرگرمیوں میں اضافہ صدر چین کی ایک توجہ ہٹاؤ حکمت عملی معلوم ہوتی ہے ۔ چین اس وقت کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے الزامات میں محصور ہے اسے ایسی کوئی غلطی نہیں کرنی چاہئے جس سے برصغیر یا جنوبی ایشیاء میں جنگ کی صورتحال پیدا ہوجائے ۔ ہندوستان نے اب تک پورے صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے چینی افواج کی در اندازی کی کوششوں کو نرمی سے نمٹا ہے ۔ ہندوستانی ہمالیائی سرحدوں پر چین کی یہ سرگرمیاں یا فوجی پیشرفت کی کوششیں گذشتہ 15 سال سے جاری ہیں ۔ ان علاقوں میں حالیہ دنوں میں ہندوستانی دفاعی طاقتوں نے موثر بندوبست کیا ہے کئی مقامات ایسے ہیں جہاں چین کی فوج کی پیشرفت کو روکنے کے لیے بہتر انفراسٹرکچر اور فوجی ساز و سامان رکھا گیا ہے ۔ اس لیے چین کو احساس ہے کہ وہ ہمالیائی چوٹیوں پر ہندوستانی فوج کا سامنا کرنا اس کے لیے نقصان دہ ہوگا ۔ اس نے لداخ اور سمندری علاقوں میں اپنی فوجی سرگرمیاں تیز کی ہیں ۔ لیکن موجودہ حالات کسی بھی ملک کے لیے جنگ یا کشیدگی کو ہوا دینے والی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دیتے ۔ لہذا دونوں ملکوں کو باہمی طور پر مذاکرات کا راستہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ماضی میں بھی دونوں ملکوں نے سفارتی سطح پر مسئلہ پر بات چیت کی ہے ۔ ماہرین معاشیات اور کئی سیاستدانوں کا بھی یہی خیال ہے کہ دونوں ملکوں کو بات چیت اور صلح صفائی کے ذریعہ جاریہ کشیدہ صورتحال کو ختم کرنا ہوگا ۔ کیوں کہ دونوں ملک کشیدگیوں میں اضافہ کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔ ہندوستان کو چین کے ساتھ منفی تعلقات میں اضافہ سے گریز کرنا ہوگا اور چین کو بھی جو کورونا وائرس کی وجہ سے عالمی الزامات کی زد میں ہے اپنے پڑوسی ملک کے ساتھ بہتر تعلقات استوار کرنے ہوں گے ۔ چین کے ساتھ ہندوستان کے مضبوط تجارتی تعلقات بھی ہیں اس لیے چین کو اپنے مضبوط تجارتی دوست ملک کے ساتھ سرحدی کشیدگی کو ہوا دینے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے کیوں کہ کورونا وائرس نے چین کو ساری دنیا کے ممالک کے ساتھ تجارت کے معاملہ میں کمزور کردیا ہے ۔ بہر حال چین کو اپنے پڑوسی ملک ہانگ کانگ کے تعلق سے بتائی گئی پالیسیوں اور ہندوستانی سرحد پر جاری کشیدگی کے تناظر میں محتاط ہونے کی ضرورت ہے ۔ فوری طور پر ہندوستان اور چین کو ایک دوسرے سے بات چیت کرنی چاہئے ، اس سلسلہ میں چند رسمی اور غیر رسمی ملاقاتیں ضروری ہیں ۔۔