یوپی انتخابات۔ ای سی نے اے ائی ایم ائی ایم امیدارو ں کی امیدواری کو چیالنج کرنے والی عرضی پر جواب طلب کیا

,

   

شکایت کے مطابق‘ اسدالدین اویسی نے کئی متنازعہ بیانات او ر تقریریں انتخابی ریالیوں او رپریس کانفرنس کے دوران دئے ہیں۔
نئی دہلی۔مذکورہ الیکشن کمیشن آف انڈیا نے اترپردیش الیکشن کمین سے ایک درخواست جس میں اے ائی ایم ائی ایم کے امیدواروں کی امیدواری کو عوامی نمائندگی ایکٹ 1951کے تحت جاری ریاستی اسمبلی انتخابات میں منسوخ کرنے کی مانگ کی گئی ہے پر ردعمل مانگا ہے۔

ایک شکایت میں دہلی نژاد وکیل او رسماجی جہدکار ونیت جندال نے یہ الزام لگایا ہے کہ کل ہند مجلس اتحاد المسلمین (اے ائی ایم ائی ایم)امیدواروں نے عوامی نمائندگی ایکٹ1951کے دفعات 123(3) اور (3اے)کی خلاف ورزی کی ہے۔

شکایت کے مطابق صدر اے ائی ایم ائی ایم اسدالدین اویسی جو حیدرآباد کے رکن پارلیمنٹ بھی ہیں نے اپنی انتخابی مہمات او رپریس کانفرنسوں کے دوران ”متنازعات“ بیانات اپنے امیدواروں کے لئے دئے ہیں جو بڑے پیمانے پر پرنٹ او رالکٹرانک میڈیا کے ساتھ سوشیل میڈیا پر بھی بڑے پیمانے پر پھیلائے گئے ہیں۔شکایت میں لکھا ہوا ہے کہ ’اویسی نے بی جے پی پر الزام لگایا ہے کہ وہ مسلمان لڑکیوں کو حجاب پہننے کی اجازت نہیں دے رہی ہے اور یہ ویڈیو ٹوئٹر اکاونٹ پر بھی شیئر کیاہے۔

فبروری 13کے روز انہوں نے یہ کہاتھا’ایک دن ایک حجابی اس ملک کی وزیراعظم بنے گی“۔

جندال کا کہنا ہے کہ تعلیمی اداروں میں حجاب پہننے کا ایک معاملے کرناٹک ہائی کورٹ میں زیر التوا ء ہے اور اس پر ایک عبوری فیصلہ بھی دیا گیا ہے جس میں کہاگیا ہے کہ کسی بھی قسم کا مذہبی لباس کلاس روم میں پہننے کی اجازت نہیں ہے خواہ وہ بھگوا شال ہوں‘ اسکارف ہوں‘ حجاب ہوں‘ مذہبی پرچم ہوں یا پھر کوئی او رمذہبی نشان ہواس کے استعمال کی اجازت رنہیں ہے“۔


اسدالدین اویسی کا حجاب تنازعہ پر بیان
انہوں نے الزام لگایا ہے کہ اویسی نے جاری الیکشن میں اے ائی ایم ائی ایم امیدواروں کے حق میں ووٹ حاصل کرنے کے لئے مسلم کمیونٹی کو اکسانے کے مقصد سے حجاب تنازعہ پر گمراہ اور غلط بیانی سے کام لیاہے۔

اس شکایت میں اویسی کے29جنوری کے روز ایک ٹیلی ویثرن چیانل کو دئے گئے انٹرویو کو بھی اجاگر کیا جس میں انہو ں نے الزام لگایا ہے کہ ”سال2019میں امیت شاہ نے این ائی اے کی بنیاد پر یواے پی اے قانون بنایا‘ ایک انسپکٹر دہلی میں بیٹھ کر ایک مسلم کو دہشت گرد قراردیے سکتا ہے اور ”وہ اترپردیش میں مسلمانوں کی آبادی کے حساب سے 19فیصد شفاف نمائندگی ملنا چاہئے“۔

جندال نے کہاکہ ایسے بیانات کے ذریعہ ان کی ساری منشاء مسلمانوں کو دیگر سیاسی جماعتوں کے لئے بھڑکانا ہے جو مذہبی کی بنیاد پر ہے تاکہ اپنی پارٹی کے امیدواروں کے حق میں ووٹ حاصل کرسکیں۔