یوگی حکومت مخالف سی اے اے مظاہرین کو دی گئی نوٹس سے دستبرداری اختیار کرلی

,

   

قبل ازیں سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیاتھا کہ ریاستی حکومت نے مناسب عمل کی پیروی نہیں کی ہے۔
لکھنو۔ نقصانات کی بھرپائی کی مانگ کرتے ہوئے مخالف سی اے اے مظاہرین کو جاری کی گئی نوٹس سے مذکورہ اترپردیش حکومت نے دستبرداری اختیارکرلی ہے۔

اسوقت یہ شہریت ترمیمی ایکٹ(سی اے اے) کے خلاف ڈسمبر2019میں احتجاج میں شامل لوگوں کی جائیدادوں کوضبط کرنے کا اقدام اس وقت سامنے آیاجب سپریم کورٹ نے اس بات کی طرف اشارہ کیاتھا کہ ریاست نے اس میں حد سے تجاوز کیاہے۔

ایک سینئر افیسر نے کہاکہ ”مذکورہ ریاستی حکومت نے نقصانات کی بھرپائی کے لئے جاری کردہ نوٹسوں سے دستبرداری اختیار کرلی ہے“۔اہلکاروں کے بموجب ایڈیشنل ضلع مجسٹریٹس(اے ڈی ایم ایس) جو مختلف اضلاعوں میں نقصانات کی بھرپائی کے لئے مقررکردہ عدالتوں کے سربراہان ہیں‘ نے 274نوٹسیں نقصانات کی بھرپائی کے لئے جاری کئے ہیں‘ جس میں 95لکھنو میں مظاہرین کے نام جاری کئے گئے ہیں۔

فبروری 11 سپریم کورٹ نے مشاہدہ کیاتھا کہ ریاستی حکومت نے مناسب عمل کی پیروی نہیں کی ہے۔

جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور جسٹس سوریا کانت پر مشتمل بنچ نے حکومت کے لاء افیسر سے پوچھا کہ”کیا آپ شکایت کنندہ بن گئے ہیں‘ کیا آپ گواہ ہوگئے ہیں‘ آپ کیا استغاثہ بن گئے ہیں اور پھر لوگوں کی جائیدادوں کو شامل کررہے ہیں۔کیا یہ کسی بھی قانون کے تحت جائز ہے؟“۔

اس سے قبل کے کیس میں مذکورہ عدالت عظمیٰ نے مشاہدہ کیاکہ2009میں عوامی ملکیت کی تباہی کا خمیازہ کی تحقیقات کا اندازہ لگانے کے لئے دعویدار کمشنر کے طور پر کسی ریٹائرڈ ضلع مجسٹریٹ‘ یا ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کے خدمات لئے جاتے ہیں۔

مخالف سی اے اے احتجاج 2019ڈسمبر میں بعض مقامات پر پرتشدد ہوگیاتھا۔ بعض مظاہرین نے لکھنو کے بشمول کئی شہروں میں عوامی املاک کو نقصان پہنچایا اور نذر آتش کردیاتھا۔

نقصاندہ املاک کی وصولی کا تخمینہ کے لئے ریاستی حکومت نے نوٹسیں جاری کی تھیں اور اس کے لئے محمد شجیع الدین بمقابلہ ریاست یوپی معاملے میں 2011میں دئے گئے الہ آباد ہائی کورٹ کے ایک فیصلہ کا حوالہ بھی اس کے لئے دیاتھا۔

تاہم اس میں سپریم کورٹ کے گائیڈ لائنس 2009اور اسی کیساتھ2018میں جو جاری کئے گئے تھے اس کو نظر انداز کردیاگیاتھا۔

ایک سابق ائی پی ایس افیسر ایس آر دارا پوری جنھیں بھی ایک نوٹس ملا ہے نے کہاکہ ”اگر ریاستی حکومت نے نوٹسوں سے دستبرداری کا فیصلہ کیاہے تو یہ قابل خیر مقدم اقدام ہے۔ مگر حکومت نے سپریم کورٹ کے دباؤ میں اس کو انجام دیا ہے“۔