یو اے ای میں ’فضلہ ‘ سے چلنے والے پہلے بجلی گھرکی تعمیر

   

ریاض: متحدہ عرب امارات نے کچرے کے ڈھیروں اور کوڑے دانوں سے چھٹکارا پانے کا ایک نیا جدید طریقہ دریافت کر لیا ہے اوراس نے کچرے کوبجلی میں تبدیل کرنے کا منصوبہ شروع کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دنیا کے سرفہرست تیل برآمد کنندگان میں سے ایک متحدہ عرب امارات کچرے کے دائمی مسئلہ سے نجات کے لیے خطہ خلیج میں فضلے سے چلنے والا پہلا بجلی گھر تعمیر کر رہا ہے۔وہ اس کے ساتھ ساتھ گیس سے چلنے والے بجلی گھروں پر بھی انحصارکرتا ہے۔ویسٹ مینجمنٹ کمپنی بیح سے تعلق رکھنے والے انجینئر نوف وزیرنے کہا کہ پاور پلانٹ فضلے کواستعمال کرنے کا ایک طریقہ ہے جسے ری سائیکل نہیں کیا جاسکتا۔وہ اس منصوبہ کے سینئرانجینئر ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ہرکوئی نہیں جانتا کہ فضلے کی بھی قدرہوتی ہے۔شارجہ میں یہ منصوبہ رواں سال شروع ہونے کی توقع ہے۔اس سے ہرسال 3 لاکھ ٹن سے زیادہ فضلہ جلاکر 28 ہزار گھروں کو بجلی مہیاکی جائے گی۔ شراکت دارکمپنیوں میں سے ایک ہٹاچی زوسین اِنووا کے مطابق ہمسایہ امارت دبئی میں ایک اور پلانٹ 1.2 ارب ڈالر کی لاگت سے تیار کیاجارہا ہے۔دبئی کا یہ منصوبہ 2024 میں مکمل ہوجائے گا اور یہ دنیا کے سب سے بڑے پلانٹس میں سے ایک ہوگا۔یہ ہرسال 19 لاکھ ٹن فضلہ ٹھکانے لگانے اور اس سے بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت کا حامل ہوگا۔یہ مقداراس وقت امارت میں پیدا ہونے والے گھریلو فضلے کاتقریباً 45 فیصد ہے۔واضح رہے کہ متحدہ عرب امارات گذشتہ چند دہائیوں کے دوران صحرائی آبادیوں سے تیزی سے پھلتے پھولتے کاروباری مرکز میں تبدیل ہوچکا ہے،تواس کا فضلہ بھی کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ اسی طرح بجلی کے استعمال میں اضافہ ہوچکا ہے اور بین الاقوامی توانائی ایجنسی کے مطابق 1990 سے اب تک یواے ای میں بجلی کی کھپت میں 750 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
یواے ای کی آبادی اس وقت 30 سال پہلے کی آبادی سے پانچ گنا بڑھ چکی ہے۔اس کے شہریوں اورمکینوں کی کل آبادی ایک کروڑ کے لگ بھگ نفوس ہے۔نیز دولت مند متحدہ عرب امارات زیادہ بجلی استعمال کرتا ہے اور تقریباً کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں فی کس زیادہ فضلہ بھی پیدا کرتا ہے۔حکام کے مطابق فضلے کی پیداوار روزانہ 1.8 کلو (چار پاؤنڈ) فی کس ہے۔ فضلے کے ماحول دوست انتظام میں مہارت رکھنے والے دبئی میں قائم مشاورتی ادارے ای سی او اسکوائر کے بانی ریاد بیسطانی نے کہا کہ یواے ای میں لوگ کھانے پینے کی بہت زیادہ چیزیں استعمال کرتے ہیں اور وہ بہت کچھ پھینک بھی دیتے ہیں۔ملک بھرمیں ہرکہیں فضلات بکھرے نظرآتے ہیں۔بلدیہ کے مطابق صرف دبئی میں قریباً 16 لاکھ مربع میٹر (395 ایکڑ) کے رقبے پرکوڑے دان محیط ہیں۔اس مسئلہ کسی پائیدارحل کی عدم موجودگی کا اندازہ اس سے کیا جاسکتا ہے کہ کوڑا کرکٹ ، کچرا 2041 تک امارت کے58 لاکھ مربع میٹر پر قبضہ کر لے گا اور یہ 800 سے زیادہ فٹ بال پچوں کے سائز کاعلاقہ ہے۔ دبئی میں قائم کمپنی ڈی گریڈ کی ڈائریکٹرایما باربرکا کہنا ہے کہ امارت میں کچرا ٹھکانے لگانے کی فیس بہت زیادہ ہے، لہٰذا تمام مواد کو صحرا میں پھینکنا کافی سستا اور آسان سمجھاجاتا ہے۔ڈی گریڈ ری سائیکل کی گئی پلاسٹک کی بوتلوں سے کپڑے اور دیگر لوازمات ڈیزائن اور تیارکرتی ہے۔ متحدہ عرب امارات نے پہلے ہی اپنی بجلی کی پیداوار میں تنوع لانے کا آغازکردیا ہے۔اس کی پیداوار کا 90 فی صد سے زیادہ حصہ گیس سے چلنے والے پلانٹس سے حاصل ہوتا ہے۔گذشتہ سال یواے ای نے عرب دنیا کے پہلے جوہری پلانٹ کا افتتاح کیا تھا۔دنیا کے گرم ترین علاقوں میں سے ایک مقام ہونے کی وجہ سے یواے ای کے پاس شمسی توانائی کے نمایاں وسائل موجود ہیں۔