یو پی انتخاب ‘ فرقہ وارانہ کھیل کا آغاز

   

ملک کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش میں آئندہ سال اسمبلی انتخابات ہونے والے ہیں۔ ریاست میں اقتدار بچانا بی جے پی کیلئے مشکل ہوگیا ہے ۔ جس طرح سے کورونا بحران کے وقت میں حکومت نے نا اہلی کا مظاہرہ کیا اور تاناشاہی فیصلے کئے اس کو دیکھتے ہوئے خود بی جے پی حلقوں میں یہ تاثر عام ہوگیا ہے کہ آدتیہ ناتھ کی قیادت میں بی جے پی کیلئے ریاست میں اقتدار بچانا مشکل ہوجائیگا ۔ اس انتخاب کی بہت زیادہ اہمیت ہے کیونکہ 2022 میں اترپردیش اسمبلی انتخابات کے بعد 2024 میں عام لوک سبھا انتخابات ہونگے ۔ عام انتخابات میں مودی زیر قیادت حکومت کو بچانے کیلئے 2022 میں اترپردیش میں بی جے پی حکومت کو بچانا ضروری ہوگیا ہے ۔ گذشتہ چند دن سے بی جے پی میں جو اجلاس ہوتے جا رہے ہیں اور حالات کا جو جائزہ لیا جارہا ہے اس کو دیکھتے ہوئے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ اترپردیش میں بی جے پی کیلئے سب کچھ ٹھیک نہیں ہے ۔ پارٹی کو ریاست میں پیش آنے والی مشکلات اور حکومت سے عوام کی ناراضگی کا احسا س ہوگیا ہے ۔ آر ایس ایس نے بھی پارٹی کو حقیقی صورتحال اور عوامی بے چینی سے واقف کروایا ہے ۔ اس کو دیکھتے ہوئے بی جے پی نے ریاست میں اسمبلی انتخابات کی تیاریوں کا آغاز کردیا ہے ۔ مختلف اجلاس منعقد ہوئے ہیں اور خود چیف منسٹر آدتیہ ناتھ کو دہلی طلب کیا گیا تھا جہاں انہوںنے وزیر داخلہ امیت شاہ اور وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی ہے ۔ یہ ظاہری طور پر کئے جانے والے اقدامات ہیں جن کا مقصد ریاست میں عوام کی ناراضگی کو دور کرنا ہے تاہم در پردہ فرقہ وارانہ منافرت کا کھیل شروع کردیا گیا ہے ۔ عوام کو ایک بار پھر سے فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کے اقدامات شروع ہوچکے ہیں۔ عوام کی توجہ کورونا بحران میں انہیں پیش آنے والی مشکلات اور مہنگائی و دیگر اہم مسائل سے ہٹانے کی باضابطہ مہم شروع کردی گئی ہے ۔ سوشیل میڈیا پر ہو یا پھر زر خرید ٹی وی میڈیا پر ہوں ہندو ۔ مسلم مسائل پر مباحث کا آغاز کردیا گیا ہے ۔ یہاں اہمیت کے حامل مسائل کو ہمیشہ کی طرح ایک بار پھر نظر انداز کردیا گیا ہے ۔
اس کے علاوہ مسلمانوں کو نشانہ بنانے اور منافرت کو بھڑکانے کے واقعات بھی دوبارہ شروع کردئے گئے ہیں۔ گذشتہ دنوں غازی آباد میں ایک معمر مسلمان شخص کو نشانہ بنایا گیا ۔ انہیں مارپیٹ کی گئی ۔ ان کی داڑھی کاٹی گئی اور انہیں جئے شری رام کا نعرہ لگانے پر مجبور کیا گیا ۔ یہ اتفاق سے پیش آنے والا واقعہ نہیں ہے بلکہ ایک منصوبہ کا حصہ ہے ۔ بی جے پی کو یہ احساس ہوچکا ہے کہ وہ حکومت کی کارکردگی کی بنیاد پر دوبارہ عوامی تائید حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکتی ۔ اسے عوام کی برہمی اور غیض و غضب کا سامنا ہے ۔ اسی لئے اس نے فرقہ وارانہ منافرت کو بھڑکانے کا کھیل شروع کروادیا ہے ۔ کچھ گوشوں سے اشتعال انگیز بیانات بھی شروع کردئے گئے ہیں۔ مذہبی نعروں کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔ یہ سارا کچھ ایک منظم کھیل ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے اور جہاں تک میڈیا اور سوشیل میڈیا کا سوال ہے تو انہیں اس طرح کے واقعات کو زیادہ اہمیت دینے کی بجائے ان کی تشہیر سے گریز کرنے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کی توجہ بنیادی اور حقیقی مسائل پر ہی مرکوز رہ سکے ۔ مغربی بنگال اسمبلی انتخابات میں سردھڑ کی بازی لگانے کے باوجود شکست سے دوچار بی جے پی اترپردیش میں کسی بھی قیمت پر کامیابی حاصل کرنا چاہتی ہے اور مستقبل میں بھی غازی آباد جیسے واقعات کے اعادہ کا امکان مسترد نہیں کیا جاسکتا ۔ بی جے پی کے پاس سوائے مذہبی جذبات کے استحصال اور فرقہ پرستی کا سہارا لینے کے کوئی چارہ انتخابات جیتنے کیلئے نہیں رہ گیا ہے ۔
بی جے پی نے حالانکہ مغربی بنگال میں بھی مذہبی جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کی تھی ۔ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنے کی کوشش کی تھی لیکن ممتابنرجی کی ترنمول کانگریس نے عوام کی توجہ حقیقی مسائل سے ہٹنے نہیں دی ۔ انہوں نے جارحانہ تیور اختیار کرتے ہوئے بی جے پی کی تمام کوششوں کو ناکام بنادیا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس طرح کے واقعات کے پس پردہ محرکات کو سمجھا جائے ۔ بی جے پی کو ایسے واقعات سے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا جانا چاہئے ۔ ایسے واقعات کا تدارک کیا جانا چاہئے اور بی جے پی کو سیاسی فائدہ کیلئے فرقہ وارانہ جذبات کے استحصال کا موقع فراہم نہیں کیا جانا چاہئے ۔