یکساں سیول کوڈ دستور کے خلاف اور ناقابل عمل!

   

جامعہ عائشہ نسوان میں پروگرام محترمہ مفیضہ اور محترمہ جلیسہ یاسمین کا خطاب

حیدرآباد /16 جولائی (راست ) ہم ایک جمہوری ملک میں رہتے ہیں، اس ملک کے آئین میں ہر شہری کو اپنے مذہب کے مطابق عقیدہ رکھنے ، عمل کرنے اور اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کا حق دیا گیا ہے ۔ ہمارے ملک کی یہ خوبی ہے کہ یہاں مختلف قسم کے عقائد و نظریات اور رسوم و عادات رکھنے والے لوگ ایک ساتھ بھائی چارگی کے ساتھ صدیوں سے رہتے ہوئے آرہے ہیں ۔ یہ اس ملک کا حسن ہے، لیکن ادھر یہ کوششیں ہو رہی ہیں کہ ایک ایسا قانون بنایا جائے جس کے تحت نکاح، طلاق ، خلع ، نفقہ ، وراثت ، وصیت اور گود لینے جیسے عائلی قوانین کو بلا تفریق مذہب و ملت یکساں کردیا جائے ۔ اسے ہی یکساں سیول کوڈ کہتے ہیں ۔اس طرح کی قانون سازی جہاں آئین ہند کے خلاف ہے وہیں اس سے اس ملک میں آباد بہت سی قوموں اور قبلیوں کے خاندانی رسومات اور عائلی تہذیبوں پر روک لگا جائے گی اور مسلمانوں کیلئے نکاح ، طلاق ، عدت ، نفقہ ، وصیت ، وراثت اور دیگر عائلی قوانین کے بارے میں قرآن و حدیث کے حکم پر عمل کرنے کا دروازہ بند ہوجائے گا ۔ ان خیالات کا اظہار جامعہ عائشہ نسوان حیدرآباد میں منعقدہ پروگرام میں محترمہ مفیضہ مبلغہ آل انڈیا پرسنل لاء بورڈ نے اپنے تفصیلی خطاب میں کیا ۔ اجلاس میں آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے شعبہ خواتین کی نگراں محترمہ جلیسہ یاسمین ( ایڈوکیٹ ) نے بھی تفصیلی خطاب کیا ۔ انہوں نے بتایا کہ 1937 کا شریعہ اپلیکشن ایکٹ ، 1938 کا کچھی میمن ایکٹ اور 1939 کا قانون فسخ نکاح ، مسلمانوں کو عائلی مسائل میں اسلامی قوانین پر عمل کرنے کا حق دیتا ہے ۔ ان تینوں ایکٹ کے مجموعہ کو مسلم پرسنل لا کہتے ہیں ۔ یہ پروگرام مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کی ہدایت پر مولانا حافظ خواجہ نذیر الدین سبیلی اور میر مقبول علی ہاشمی کی نگرانی اور محترمہ ذکیہ راحت کی صدارت میں منعقد ہوا ۔ محترمہ رقیہ رفعت نے نظامت کے فرائض انجام دئے ۔