یہ جنگ ہماری ہے تو دوسرا کیوں لڑے

   

محمد مصطفی علی سروری
چارمینار کو مسلمانوں نے نہیں بلکہ جین حکمرانوں نے تعمیر کیا تھا۔ اس کے علاوہ تاج محل کو بھی مغل حکمران شاہ جہاں نے تعمیر نہیں کیا بلکہ اس نے جئے سمہا کے تیجو محل کو خرید کر اس کو تاج محل کا نام دے دیا۔ ان خیالات کا اظہار مملکتی وزیر اننت کمار ہیگڈے نے کیا۔ وہ کرناٹک میں کوڈاگو کے مقام پر ہندوجاگرن ویدیکا کے اجلاس کو مخاطب کر رہے تھے۔ (بحوالہ اخبار ۔ نیشنل ہیرالڈ۔ 28؍ جنوری 2019)
یہ پہلا موقع نہیں ہے جب ملک کی تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی کوشش کی گئی اور یہ مندرجہ بالا بیان کوئی عام کارکن کا نہیں ہے بلکہ مرکزی حکومت میں شامل وزیر کا ہے۔ انہوں نے باضابطہ گریجویشن تک تعلیم بھی حاصل کی ہے۔ ان کی عمر 50 برس بتلائی گئی اور وہ گذشتہ پانچ میعادوں سے کرناٹک سے پارلیمنٹ کے ممبر منتخب ہوکر آرہے ہیں۔
قارئین یہاں اس بات کو بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر چارمینار کو کس نے بنایایا تاج محل کو کس نے بنایا اس کی تاریخ کو بدلنے کی کوشش کی گئی تو یہ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی نہیں بلکہ سارے ملک کے ساتھ دشمنی ہے اور بہت سارے ہندوستانی ہیں جو اس طرح کی سونچ کے خلاف اپنی آواز بھی اٹھاتے ہیں اور قلم بھی ۔ ایسا ہی ایک خط ایڈیٹر کے نام سکندرآباد کے پی ایچ ہیما ساگر نے لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہندوستان جیسے تاریخی ورثہ کے حامل ملک میں بڑے افسوس کی بات ہے سیاسی قائدین اپنے مفادات کی تکمیل کے لیے تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کر رہے ہیں۔ جس کی ماضی کی میں کوئی نظیر نہیں ملتی ہے۔ ہیما ساگر کے مطابق ہندوستان کی اصل تاریخ کو محفوظ رکھ کر ہی ملک میں وحدت اور بھائی چارگی کے ماحول کو قائم رکھا جاسکتا ہے، جو ملک کی ترقی کے لیے بے حد ضروری ہے۔ (بحوالہ اخبار دی ہنس انڈیا۔ 29؍ جنوری 2019)
قارئین ہر فکر مند شہری کو اس حوالے سے فکر کرنی ہوگی کہ شدت پسند اور فرقہ پرست مفادات حاصلہ کی جانب سے تاریخ کو مسخ کرنے اور توڑ مروڑ کر پیش کرنے کی ہر کوشش کو روکا جائے اور تاریخ کا موضوع کوئی ایسا مضمون نہیں ہے کہ چائے کی پیالی ہاتھ میں لے کر اس پر بات کی جائے۔ اسکول کے بچوں سے لے کر یونیورسٹیوں کے طلبہ کو کلاس رومس میں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے کیا وہ صحیح تاریخ ہے یا اس کو بھی مسخ کردیا گیا۔ کیا ہم نے کبھی جاننے کی کوشش کی؟
مسلم دانشوروں کی ذہنی قلاشی کا اس سے بڑھ کر اور کیا ثبوت ہوسکتا ہے کہ ہر دوسرا مسلم دانشور مسلمانوں کے مسائل کا حل انگلش میڈیم کی تعلیم میں دیکھتا ہے اور قوم کی ترقی کے لیے اس قوم میں پڑھنے والے ڈاکٹر س اور انجینئرس کی تعداد سے لگانے کی کوشش کرتا ہے۔ حالانکہ جس ملک و قوم میں سوشل سائنس کو اہمیت نہیں دی جاتی وہیں پر کسی کے لیے بھی یہ کام آسان ہوجاتا ہے کہ وہ مفادات کے لیے تاریخ کو اپنے حساب سے پیش کرنے کی کوشش کرے اور ہمارے ملک ہندوستان میں بھی ایسا ہی کچھ معاملہ ہے۔
آزادہندوستان کی تاریخ کے سب سے اہم مسئلے کو لے لیجیے جی ہاں میری مراد 6؍ دسمبر 1992 کو شہید کی گئی بابری مسجد سے ہے۔ اس مسجد کے حوالے سے ملک کے مسلمان اگرچہ قانونی لڑائی عدالت میں لڑ رہے ہیں لیکن عدالت نے بھی فیصلہ لینے سے پہلے تاریخ کے ماہرین سے رائے طلب کی۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے لوگوں کو بلایا گیا تاکہ حقیقت کا پتہ چلایا جاسکے۔ بابری مسجد کی لڑائی آج بھی عدالت میں جاری ہے اور مسجد کی شہادت کو 27 برس بیت گئے لیکن مسلمانوں نے نہ تو تاریخ کے مضمون پر توجہ دی اور نہ قانون کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اپنے ہونہار ذہنوں کو متوجہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔
کیا پوری صورتحال مایوس کن ہے۔ جی نہیں! آج بھی کچھ افراد اور انجمنوں کو احساس ہے کہ تاریخ کے مضمون سے بے اعتنائی ہر سچے ہندوستانی کو بہت بھاری پڑ سکتی ہے۔
آمنہ بیگم، این ٹی آر گورنمنٹ ڈگری کالج میں تاریخ کے مضمون کی لکچرر ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ تاریخ کے مضمون کو نوجوان نسل میں مقبول عام کرنے کے لیے بہت سارے لوگ فکر مندی کا اظہار کرتے ہیں لیکن جب ہم جیسے اساتذہ جو تاریخ پڑھاتے ہیں بچوں سے بات کرتے ہیں تو بچے اپنی عدم دلچسپی کا اظہار کرتے ہیں۔ اس پس منظر میں آمنہ بیگم نے تاریخ کے مضمون میں نوجوان طلبہ برادری کی دلچسپی کو بڑھاوا دینے ایک تجویز تیار کی اور اپنے کالج کے صدر شعبۂ ہسٹری جناب ایس گنگادھر کے ساتھ مل کر اپنے این ٹی آر گورنمنٹ ڈگری کالج میں تاریخ کے موضوع پر ایک تعلیمی نمائش منعقد کرنے کا پروگرام بنایا۔ کالج کی پرنسپل ڈاکٹر بی بی زینب نے اس تعلیمی نمائش کی تجویز کو فوری منظوری دے دی۔ انہوں نے کہا کہ اسکول کے بچوں میں سائنسی مضامین سے دلچسپی بڑھانے کے لیے سائنس ایگزبیشن بڑا اہم رول ادا کرتے ہیں۔ ایسے میں انہیں امید ہے کہ تاریخ جیسے موضوع پر بھی اگر تعلیمی نمائش دلچسپ ہو تو یقینا نوجوان نسل کی اس مضمون میں دلچسپی بڑھے گی اور وہ اس مضمون میں حصول تعلیم کے لیے آگے آئے گی۔
محترمہ آمنہ بیگم کے لیے اب سب سے بڑا چیلنج اس نمائش کے لیے جو کہ تاریخ کے موضوع پر ہونے والی تھی کالج کی طالبات (این ٹی آر گورنمنٹ ڈگری کالج صرف لڑکیوں کا کالج ہے) کو اس نمائش حصہ بنانا تھا۔ انہوں نے تاریخ کو مختلف ابواب میں تقسیم کیا۔ (1) ملک کی تاریخ (2) ریاست کی تاریخ ۔ (3) بین الاقوامی تاریخ ۔ (4) تاریخی شخصیات۔ (5) تاریخی عمارات۔ اب لڑکیوں کو کہہ دیا گیا کہ وہ اپنی پسندکے کسی موضوع پر کام کریں۔
قارئین آمنہ بیگم کے مطابق کسی لڑکی نے تاج محل کا ماڈل تیار کیا تو کسی نے چارمینار کا ماڈل بنایا۔ کسی نے کاکتیہ گیٹ کا ماڈل بنایا تو کسی نے عثمانیہ یونیورسٹی کے آرٹس کالج پر ماڈل تیار کیا۔ لڑکیوں کے ایک گروپ نے چارٹس کے ذریعہ ملک و ریاست کی تاریخ کو دلچسپ انداز میں پیش کرنے کی کوشش کی۔ یوں جب 18؍ فروری 2019کو این ٹی آر کالج، محبوب نگر میں تاریخ کے مضمون پر نمائش کا افتتاح کرنے کے لیے جنرل سکریٹری دکن ہسٹری سوسائٹی پرفیسر ایوب علی پہنچے تو یہ دیکھ کر دنگ رہ گئے کہ تاریخ کے موضوع پر تعلیمی نمائش میں 50 سے زائد ماڈلس اور تقریباً 100 چارٹس پیش کیے گئے تھے۔ ابتداء میں دو دنوں تک طئے کی گئی اس نمائش میں دیکھنے والوں کی تعداد اور دلچسپی اس قدر بڑھ گئی کہ پرنسپل ڈاکٹر بی بی زینب نے اس نمائش میں مزید ایک دن کی توسیع کا فیصلہ کیا۔ یوں اس تین دن کی نمائش کو کالج کی دیگر طالبات کے علاوہ محبوب نگر شہر سے بھی کثیر تعداد میں طلبہ اور نوجوانوں نے دیکھا۔
نمائش میں ہر ماڈل اور ہر چارٹ کے ساتھ طالبات کھڑی ہوکر ناظرین کو اس تاریخی عمارت، افراد اور واقعات کے بارے میں ایسے تفصیلات سے آگاہ کر رہی تھی جیسے وہ تاریخ کی تعلیمی نمائش نہیں ہے بلکہ کوئی سائنس کی نمائش ہو۔
قارئین یہ تو محبوب نگر کے ایک ڈگری کالج کی بات تھی جہاں پر جب ٹیچرس نے طئے کرلیا کہ وہ نوجوان نسل کو تاریخ کے مضمون سے نہ صرف واقف کروائیں گے بلکہ انہیں ترغیب دلوائیں گے۔ لیکن جس طرح سے ملک کے سیاسی حالات کروٹ لے رہے ہیں، اس پس منظر میں مسلمانوں کے دانشو روں کی بھی ذمہ داری ہے وہ باصلاحیت اور نہایت ذہین نوجوانوں کو تاریخ کے مضمو ن کی جانب راغب کریں۔
نواب میر عثمان علی خان کا شمار سلطنت آصفیہ کے ایک عظیم حکمراں کے طور پر ہوتا ہے۔ انہوں نے جب 1918ء میں عثمانیہ یونیورسٹی (جامعہ عثمانیہ) کا آغاز کیا تو اس وقت صرف میڈیسن اور قانون کے کورسز ہی نہیں بلکہ تاریخ کے مضمون میں تعلیم دینے کے لیے عثمانیہ یونیورسٹی میں شعبۂ تاریخ کو بھی شروع کیا گیا۔ جامعہ عثمانیہ کے شعبہ تاریخ نے بھی اپنے قیام کے 100 برس مکمل کرلیے اور عثمانیہ یونیورسٹی کے ہسٹری ڈپارٹمنٹ کا آج یہ حال ہے کہ جس قوم نے اس ملک کو لال قلعہ سے لے کر تاج محل، قطب مینار سے لے کر چارمینار تک جیسی تاریخی شاہکار عمارتیں دی ہیں اور جنہوں نے اس ملک کے بڑے حصے پر کم و بیش 800 برسوں تک حکومت کی آج اس قوم کے لوگ تاریخی جامعہ عثمانیہ میں چائے اور پانی پلانے والے بن کر رہ گئے اور عثمانیہ یونیورسٹی کے 25 سے زائد شعبوں میں چراغ لے کر ڈھونڈنے پر بھی مسلمان نہیں ملیں گے۔ یہ صورت حال اس بات کی مظہر ہے کہ مسلمانوں نے تاریخ کے مضمون کو اس بری طرح سے نظر انداز کردیا ہے کہ تاریخ لکھنے والوں نے بھی مسلمانوں کو قابل اعتناء نہیں سمجھا اور تاریخ کو اپنی مرضی و مفاد کے حساب سے موڑنے لگے۔
واقعی وہ لوگ جو ہمیں پسند نہیں کرتے تھے، وہ ہماری تاریخ کو مسخ کرنے لگے۔ مسلمانوں کی تاریخ کو توڑ موڑ کر لکھا گیا۔ اسلام کو نشانہ بنایا گیا۔ مسلمانوں کو دہشت گرد بتایا گیا۔ کبھی فلم بناکر، تو کبھی سیریل کے ذریعہ۔ کبھی کارٹون کے ذریعہ سے تو کبھی کتاب لکھ کر۔ مسلمان دانشور ڈاکٹر اور انجینئر تیار کرنے میں مصروف رہے اور اب تو مذہبی رجحان رکھنے والے افراد کے لیے یہ بات ترجیحات میں شامل ہوگئی کہ دینی تعلیمی پس منظر رکھنے والے طلبہ کو ڈاکٹر اور انجینئر بنایا جائے۔
عملی طور پر آج مسلمانوں کو ایک سے بڑھ کر ایک ماہر سماجیات ماہر مورخین اور سوشل سائنس دانوں کی ضرورت ہے جو مسلمانوں کو ذہنی غلامی کے چنگل سے آزاد کرائیں اور انہیں اپنی شاندار تاریخ سے واقف کرواتے ہوئے دنیا بھر کی منصب امامت کے لیے تیار کریں۔
علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا ؎
سبق پھر پڑھ صداقت کا عدالت کا شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا
تاریخ کے علاوہ قانون کی تعلیم کے میدان میں باصلاحیت ہنرمند اور چست ذہن افراد کی ضرورت ہے۔ کیا کوئی ادارہ، افراد اور انجمن ہے جو ان مضامین میں حصولِ تعلیم اور اعلیٰ تعلیم کے لیے اسکالر شپ، گولڈ میڈل اور دیگر ترغیبات دینے کے لیے تیار ہے۔ اگر ہم ہندوستانی شہری اپنے مسائل حل کرنے کے لیے خود آگے نہ آئیں تو دوسرا کیوں کر آگے آئے گا اور یہ جنگ ہماری ہے تو ہمیں ہی لڑنی پڑے گی۔
(کالم نگار مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے شعبۂ ترسیل عامہ و صحافت میں بحیثیت اسوسی ایٹ پروفیسر کارگذار ہیں)
sarwari829@yahoo.com