یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات

   

بہار… تبدیلی کی لہر… نوجوان قیادت کی مانگ
سی اے اے… بی جے پی کو ایجنڈہ کی فکر

رشیدالدین
بہار کی سیاست میں تبدیلی کے رجحان نے برسر اقتدار بی جے پی ۔ جے ڈی یو اتحاد کی نیند حرام کردی ہے۔ اسمبلی انتخابات کی مہم نے شدت اختیار کرلی اور دو نوجوان قائدین کی بڑھتی مقبولیت نے عمر رسیدہ و روایتی قسم کے قائدین کے ہوش ٹھکانے لگادیئے ہیں۔ گزشتہ 15 برسوں سے نتیش کمار کی قیادت میں مخلوط حکومت کا راج چل رہا ہے ۔ وقت اور عمر کے ساتھ نتیش کمار تھک سے گئے ہیں اور عوام کی نظروں میں ان کی جاذبیت اور مقبولیت میں کمی واقع ہوئی ہے۔ نتیش کمار مغربی بنگال میں جیوتی باسو کے ریکارڈ کی برابری کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔ جیوتی باسو کے ریکارڈ کی برابری کے لئے پہلے جیوتی باسو کی طرح بننا پڑے گا ۔ غریب پرور ہونے کے ساتھ ساتھ جیوتی باسو اصول پسند تھے۔ اپنی سیاسی زندگی میں انہوں نے کبھی اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا ۔ نتیش کمار کی شخصیت بالکل برعکس ہے۔ رام منوہر لوہیا کے نام لیوا تو ہیں لیکن وہ انتہائی موقع پرست ثابت ہوئے۔ اقتدار کے لئے سیکولر طاقتوں کا ساتھ چھوڑ کر بی جے پی سے سمجھوتہ کرلیا ۔ بہار میں بی جے پی کو قدم جمانے کیلئے مضبوط سہارے کی تلاش تھی، لہذا چیف منسٹر کے عہدہ پر نتیش کمار کو برقرار رکھتے ہوئے اپنے مقاصد کی تکمیل کی گئی ۔ جس وقت نتیش کمار نے لالو پرساد یادو سے ناطہ توڑ لیا ، اس وقت کرپشن کے مقدمات کے نتیجہ میں لالو پرساد یادو کا امیج عوام میں خراب ہوچکا تھا، جس کا فائدہ بی جے پی اور جے ڈی یو کو حاصل ہوا۔ لالو پرساد کو مقدمات کا سامنا تو دوسری طرف کانگریس کے کمزور موقف نے نتیش کمار کے خواب کو پورا کرنے میں مدد کی لیکن اب صورتحال تبدیل ہوچکی ہے ۔ تیجسوی یادو اور چراغ پاسوان عوام کے لئے امید کی کرن بن کر ابھرے ہیں ۔ ایک طرف 15 سالہ طویل اقتدار نے عوام کی نظروں میں نتیش کمار کی وقعت کو گھٹادیا ہے تو دوسری طرف تیجسوی اور چراغ پاسوان نوجوانوں کی تائید حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے۔ اگرچہ دونوں کا تعلق الگ الگ پارٹیوں سے ہے لیکن انہوں نے عوام کے بہتر مستقبل کی ضمانت دیتے ہوئے پسماندہ ریاست کے عوام میں امید جگائی ہے ۔ نوجوان قیادتوں نے تبدیلی کی لہر پیدا کرتے ہوئے نتیش کمار کے اقتدار کو خطرہ پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔ بہار چناؤ میں ایک طرف نتیش کمار کا تجربہ ہے تو دوسری طرف تیجسوی اور چراغ پاسوان میں خدمت کا جذبہ ہے ۔ عوام تجربہ کار نتیش کمار کو اقتدار دے کر ایک اور تجربہ کریں گے یا پھر نوجوانوں کو خدمت کا موقع دیا جائے گا ، اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا ۔ رام ولاس پاسوان کی زندگی میں چراغ پاسوان نے ایل جی پی کی قیادت سنبھال لی تھی۔ پاسوان کے سیاسی وارث کی حیثیت سے انہوں نے بہار میں تبدیلی کے اٹھتے طوفان کو محسوس کرتے ہوئے تنہا مقابلہ کا فیصلہ کیا ۔ اتحاد سے علحدگی نے نتیش کمار اور بی جے پی کو دھکا دیا ہے۔ چراغ قومی سطح پر این ڈی اے میں شامل ہیں لیکن بہار میں بی جے پی اور جے ڈی یو کے خلاف مقابلہ کریں گے ۔ مودی کی تصویر ساتھ رکھتے ہوئے وہ نتیش کمار کو نشانہ بنارہے ہیں۔ چراغ کی شاطرانہ سیاسی چالوں سے بوکھلاکر بی جے پی کو یہ اعلان کرنا پڑا کہ چراغ کا بی جے پی سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ موجودہ صورتحال نے تیجسوی اور چراغ کو قریب کردیا ہے اور عین ممکن ہے کہ انتخابی نتائج کے بعد دونوں مفاہمت کرلیں۔ گزشتہ 15 برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب بہار میں نوجوان قیادت ابھری ہے۔ تیجسوی یادو نے 10 لاکھ روزگار فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے لاک ڈاؤن میں روزگار سے محروم پریشان حال لاکھوں بیروزگار نوجوانوں اور مزدوروں کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے ۔ لالو پرساد کے جیل میں ہونے سے ہمدردی کی لہر بھی دکھائی دے رہی ہے ۔ تیجسوی کے جلسوں میں عوام کی بھاری تعداد تبدیلی کے رجحان کی طرف اشارہ ہے۔ چراغ پاسوان کے ساتھ والد کی موت پر عوامی ہمدردی ہے اور ساتھ میں وہ پاسوان کے حقیقی سیاسی وارث اور چشم و چراغ ہیں۔ اس طرح وہ اسم با مسمیٰ بن چکے ہیں۔ بہار کی انتخابی مہم میں دونوں کا پلڑا بھاری دکھائی دے رہا ہے۔ بی جے پی اپنے بل پر کامیابی حاصل کرنے کے موقف میں نہیں ہے ۔ اسی لئے اعلان کیا گیا کہ زائد نشستوں کے حصول کے باوجود نتیش کمار چیف منسٹر برقرار رہیں گے ۔ گزشتہ کی طرح اس مرتبہ مودی کا جادو چلنے والا نہیں ہے ، لہذا بی جے پی کی پریشانی میں اضافہ ہوچکا ہے ۔ گزشتہ 6 برسوں میں مرکز کی مایوس کن کارکردگی اور پھر لاک ڈاؤن کے دوران لاکھوں مزدوروں اور نوجوانوں کی وطن واپسی کا بی جے پی کی مہم پر منفی اثر پڑا ہے۔ روزگار اور اچھے دن کی امید میں نوجوان نسل تیجسوی اور جونیئر پاسوان کی تائید کرے تو بہار کی سیاست میں انقلابی تبدیلی آسکتی ہے ۔ مودی نے حالیہ عرصہ میں نہ صرف بہار کا کئی مرتبہ دورہ کیا بلکہ مختلف ترقیاتی پراجکٹس کا ورچول تقریب سے آغاز کرتے ہوئے رائے دہندوں کو لبھانے کی کوشش کی ہے لیکن عوام مودی کے بہار ترقیاتی پیاکیج کے بارے میں سوال کر رہے ہیں جس کا اعلان گزشتہ اسمبلی انتخابات کے وقت کیا گیا تھا ۔ نریندر مودی نے بہار کے لئے ایک لاکھ 25,000 کروڑ کے پیاکیج کا اعلان کیا تھا ۔ پیاکیج میں کتنی رقم اور کہا خرچ کی گئی ، اس کی تفصیلات عوام جاننا چاہتی ہے ۔ کانگریس بہار میں اپنے وجود کا احساس دلانے کی کوشش کر رہی ہے۔ پارٹی کا ریاست میں کوئی پرکشش چہرہ نہیں ہے۔ انتخابی مہم میں سونیا گاندھی ، راہول گاندھی اور پرینکا حصہ لیں تو نہ صرف کانگریس بلکہ راشٹر جنتا دل کو فائدہ ہوگا۔ سیاسی مبصرین بہار میں نئی سیاسی صف بندی کے بارے میں پرامید ہیں۔ راشٹریہ جنتا دل ، کانگریس اور لوک جن شکتی کے درمیان اتحاد کے امکانات کو خارج نہیں کیا جاسکتا۔
ملک میں ایک طرف عوام کورونا وباء سے بے حال ہیں تو دوسری طرف بی جے پی کو اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈہ پر عمل آوری کی فکر ہے۔ نریندر مودی نے قوم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں لاک ڈاؤن اگرچہ ختم ہوچکا ہے لیکن کورونا وائرس ابھی باقی ہے۔ انہوں نے آنے والے دنوں میں صورتحال کی سنگینی کے بارے میں عوام کو باخبر کیا۔ کورونا کی صورتحال کے دوران مختلف تہواروں کی آمد سے حکومت پریشان ضرور ہیں لیکن اسے بہار کے عوام کی کوئی فکر نہیں۔ کورونا کی صورتحال میں بہار انتخابات کا انعقاد وباء میں اضافہ کا سبب بن سکتا ہے۔ شائد بی جے پی اس صورتحال کیلئے تیار ہے، اسی لئے انتخابی منشور میں اعلان کیا گیا کہ کورونا ویکسن بہار کے عوام کو مفت سربراہ کی جائے گی۔ عوام کو جانتے بوجھتے کورونا کے آگے ڈھکیل کر سیاسی مقصد کی تکمیل کہاں کی انسانیت ہے۔ بی جے پی کے صدر جے پی نڈا کی زبان پر آخر کار دل کی بات آ ہی گئی ۔ انہوں نے اعلان کیا کہ شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) پر بہرصورت عمل کیا جائے گا ۔ مطلب یہ ہوا کہ بی جے پی کو کورونا اور عوام کی ہلاکتوں کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ اسے تو بس اپنے ایجنڈہ پر عمل آوری چاہئے۔ رام مندر کے سنگ بنیاد کے بعد بی جے پی کے لئے کوئی اہم مسئلہ باقی نہیں رہا۔ لہذا سی اے اے کو دوبارہ ہوا دی جارہی ہے ۔ لاک ڈاؤن سے قبل سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر مقدمات درج کئے جارہے ہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت کے مذکورہ منصوبوں کے خلاف ملک میں پھر ایک مرتبہ ایجی ٹیشن کا آغاز ہوگا۔ شہریت ترمیمی قانون کے تحت پاکستان کو چھوڑ کر دیگر پڑوسی ممالک سے آنے والے ہندوؤں کو ملک کی شہریت دی جائے گی ۔ اس قانون سے مسلمانوں کو محروم رکھا گیا ہے ۔ حکومت نے سی اے اے ، این آر سی اور این پی آر پر ملک میں بتدریج عمل آوری کی تیاری کرلی ہے۔ جیسے ہی کورونا کی صورتحال قابو میں آئے گی بی جے پی کے ایجنڈہ پر عمل آوری کا آغاز ہوگا۔ آر ایس ایس کے سربراہ مہیش بھاگوت نے مسلمانوں کو ہندوستان میں رہنے کے لئے اکثریتی طبقہ کا غلبہ تسلیم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ آسام فرقہ وارانہ ایجنڈہ کی تکمیل کیلئے بی جے پی کی تجربہ گاہ بن چکی ہے۔ آسام میں این آر سی پر عمل کرتے ہوئے ہزاروں مسلمانوں کو شہریت سے محروم کردیا گیا اور اب 614 مدارس کو بند کرنے کی تیاری ہے۔ یہ وہ مدارس ہیں جو حکومت کی امداد سے چل رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اور دیگر مسلم اداروں نے دینی مدارس کو سرکاری امداد حاصل کرنے سے روکا تھا ۔ دیکھنا یہ ہے کہ بی جے پی کا ایجنڈہ کس حد تک آگے بڑھ پائے گا۔ افتخار عارف کا یہ شعر حالات کی عکاسی کرتا ہے ؎
یہ سب کٹھ پتلیاں رقصاں رہیں گی رات کی رات
سحر سے پہلے پہلے سب تماشہ ختم ہوگا