10 لوک سبھا حلقوں میں مسلمان بادشاہ گر، ووٹ تقسیم کرنے بی جے پی کی سازش

,

   

کانگریس اور بی جے پی میں اصل مقابلہ، شہری اور دیہی علاقوں میں متحدہ رائے دہی ضروری، مسلم ادارے متحرک ہوجائیں
حیدرآباد ۔ 28 ۔ مارچ (سیاست نیوز) تلنگانہ میں لوک سبھا کے 17 حلقہ جات میں 10 حلقہ جات ایسے ہیں جہاں اقلیتی رائے دہندے فیصلہ کن موقف رکھتے ہیں۔ حالیہ اسمبلی انتخابات میں اقلیت اور سیکولر ووٹ کی تقسیم کے باوجود کانگریس پارٹی دیہی علاقوں میں متحدہ رائے دہی کی بنیاد پر برسر اقتدار آنے میں کامیاب رہی۔ بی جے پی نے جنوبی ہند کی ریاستوں میں تلنگانہ کی 10 نشستوں پر کامیابی کا نشانہ مقرر کیا ہے ۔ بی جے پی ایک طرف اکثریتی طبقہ کے ووٹ متحد کرنے کی کوشش کر رہی ہے تو دوسری طرف وہ کانگریس اور بی آر ایس کے درمیان اقلیتوں کے ووٹ تقسیم کرنا چاہتی ہے تاکہ 10 نشستوں پر کامیابی کا نشانہ پورا ہوجائے۔ چیوڑلہ ، ملکاجگری ، کریم نگر ، نظام آباد ، سکندرآباد ، میدک ، عادل آباد، حیدرآباد ، کھمم اور ظہیر آباد میں اقلیتی رائے دہندوں کی قابل لحاظ آبادی موجود ہے اور اگر اقلیتیں کسی ایک پارٹی کے حق میں متحدہ رائے دہی کریں تو اس کی کامیابی یقینی ہوسکتی ہے ۔ حالیہ عرصہ میں ایک سروے کیا گیا جس کے تحت اس بات کا پتہ چلانے کی کوشش کی گئی کہ اسمبلی انتخابات میں شہری اور دیہی علاقوں میں اقلیتوں کی رائے دہی کا فیصد کیا تھا ۔ بی جے پی کے علاوہ کانگریس نے بھی اسمبلی چناؤ کی رائے دہی کی بنیاد پر عوام کا موڈ جاننے کے لئے سروے کا اہتمام کرایا۔ بتایا جاتا ہے کہ کئی اسمبلی حلقہ جات میں اقلیتوں اور بی سی طبقات کے ووٹ منقسم نظر آئے۔ بی جے پی چاہتی ہے کہ اسمبلی کی طرح لوک سبھا چناؤ میں بھی اقلیتوں اور پسماندہ طبقات متحد نہ ہونے پائیں جبکہ فرقہ وارانہ ایجنڈہ کے ذریعہ وہ اکثریتی طبقہ کے ووٹ بینک کو مضبوط کرنے پر توجہ مرکوز کرچکی ہے ۔ بی جے پی کو اقلیتوں کے ووٹ کی تقسیم میں کانگریس اور بی آر ایس کے ذریعہ فائدہ کی امید ہے ۔ تلنگانہ میں سہ رخی مقابلہ کا امکان ہے اور مختلف سروے رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ اصل مقابلہ کانگریس اور بی جے پی کے درمیان ہے ۔ بی جے پی مسلم علاقوں میں غیر محسوس طریقہ سے مسلمانوں کو کانگریس اور بی آر ایس کے حق میں ووٹ دینے کی ترغیب دے سکتی ہے تاکہ متحدہ طور پر کانگریس کے حق میں پولنگ نہ ہو۔ سروے رپورٹس کے مطابق جب بی آر ایس تیسرے موقف پر ہے تو پھر اقلیتوں کی بی آر ایس کے حق میں رائے دہی بی جے پی کو فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ ملک کے موجودہ حالات میں فرقہ پرست طاقتوں کو اقتدار سے روکنا اولین ترجیح ہونی چاہئے ۔ دیگر ریاستوں کے مقابلہ تلنگانہ میں فرقہ پرست تنظیموں کی سرگرمیوں کو عوام کی سرپرستی حاصل نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے دیہی علاقوں میں نفرت کے ماحول کو گرماتے ہوئے ہندو ووٹ بینک کو مستحکم کرنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ فرقہ وارانہ کشیدگی کے ذریعہ دیہی علاقوں میں جہاں مسلمانوں کی آبادی کم ہوتی ہے، وہاں ہراساں کرتے ہوئے مسلمانوں کو رائے دہی سے دور رکھا جائے گا ۔ جہاں تک کانگریس اور بی آر ایس میں اقلیتوں کی ترجیح کا سوال ہے ، ضرورت اس بات کی ہے کہ کامیابی کی اہلیت رکھنے والے سیکولر امیدوار کے حق میں متحدہ رائے دہی کی جائے۔ اسمبلی نتائج کے بعد سیاسی صورتحال کا جائزہ لیں تو کانگریس پارٹی کا موقف لوک سبھا چناؤ میں مضبوط دکھائی دے رہا ہے۔ بی آر ایس کے کئی عوامی نمائندے اور سینئر قائدین کانگریس اور بی جے پی کا رخ کر رہے ہیں جس کے نتیجہ میں بی آر ایس کیڈر میں بے چینی پائی جا تی ہے ۔ ان حالات میں بی آر ایس اس موقف میں دکھائی نہیں دیتی کہ وہ بی جے پی کو کامیابی سے روک سکے۔ لہذا اقلیتی رائے دہندوں کو سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے متحدہ طور پر کانگریس پارٹی کے حق میں رائے دہی کرنی چاہئے ۔ بی آر ایس اور بی جے پی نے تمام 17 حلقہ جات کے لئے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کردیا جبکہ کانگریس کی جانب سے 13 امیدواروں کی فہرست جاری ہوئی ہے اور مزید 4 کے نام طئے ہونا باقی ہے۔ اب تک اعلان کردہ امیدواروں میں بی آر ایس کے مقابل بی جے پی کے امیدوار مضبوط دکھائی دے رہے ہیں ۔ کانگریس نے مقامی سروے کی بنیاد پر امیدواروں کا انتخاب کیا ہے اور کامیابی کی اہلیت رکھنے والے قائدین کو ترجیح دی گئی ہے۔ تلنگانہ میں بی جے پی کے بڑھتے قدم روکنے کیلئے اقلیتوں کو شعور کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ اسمبلی چناؤ اور لوک سبھا میں کافی فرق ہوتا ہے ، لہذا ووٹوں کی معمولی تقسیم بھی بی جے پی کو لوک سبھا کی زائد نشستوں پر کامیابی دلاسکتی ہے۔ مسلم مذہبی اور سماجی تنظیموں کے علاوہ رضاکارانہ تنظیموں کی ذمہ داری ہے کہ وہ تمام 17 لوک سبھا حلقوں میں سیکولر ووٹ متحد کرنے کیلئے باقاعدہ مہم چلائیں۔ اگر اقلیتیں اور پسماندہ طبقات ووٹ کو تقسیم ہونے سے بچالیں تو بی جے پی کا 10 نشستوں پر خواب کبھی پورا نہیں ہوگا۔ جس طرح اسمبلی چناؤ میں دیہی علاقوں میں اقلیتوں نے سیاسی شعور کا مظاہرہ کیا، اسی طرح لوک سبھا چناؤ میں اس طرح کے مظاہرہ کی شدید ضرورت ہے ۔ بی جے پی بھلے ہی دیگر ریاستوں میں اپنا موقف مضبوط کرے لیکن تلنگانہ میں اسے قدم جمانے سے روکنا ضروری ہے تاکہ ریاست کی روایتی فرقہ وارانہ ہم آہنگی کو برقرار رکھا جائے۔ 1