این آر سی پر مرکز کی تضاد بیانی

   

کوئی جب نہ ہوگا تمہارا ٹھکانہ
تو پہلو میں میرے چلے آیئے گا
این آر سی پر مرکز کی تضاد بیانی
آج سارے ہندوستان میں شہریت ترمیمی قانون اور این آر سی کا مسئلہ ہی موضوع بحث بنا ہوا ہے ۔ عوام و خواص کے حلقوں میں بھی اسی مسئلہ کے تذکرے ہیں۔ حکومت کی جانب سے اپوزیشن پر الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ وہ عوام کے ذہنوں میں خوف اور اندیشے پیدا کرنے میں مصروف ہے جبکہ اپوزیشن کا الزام ہے کہ حکومت اپنے بیانات کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنا چاہتی ہے ۔ جہاں تک حقائق کا جائزہ لئے جانے کا سوال ہے تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ مرکزی حکومت اس مسئلہ پر واضح طور پر عوام کو گمراہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور اس کیلئے جھوٹ کا سہارا لیا جا رہا ہے ۔ ایسا تاثر دینے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ حکومت کے ارادے صاف ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے موقف اور اس کے بیانات ہی میں تضاد پایا جاتا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی کا دعوی ہے کہ 2014 میں اقتدار پر آنے کے بعد سے بی جے پی نے کبھی این آر سی کی بات نہیں کی ہے اور نہ ہی اس پر کوئی تبادلہ خیال ہوا ہے ۔ مودی کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی ہدایت پر صرف آسام کی حد تک این آر سی کروانا پڑا ہے ۔ اس طرح وہ اپنی معصومیت کی دہائی دیتے ہوئے عوام کو گمراہ کر نے کی کوشش کر رہے تھے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ بے شمار موقعوں پر حکومت میں نمبر 2 سمجھے جانے والے وزیر داخلہ امیت شاہ نے اعلان کیا ہے کہ ملک بھر میں این آر سی نافذ کیا جائیگا ۔ انہوں نے ایک انٹرویو کے دوران کہا تھا کہ 2024 تک این آر سی لاگو کردیا جائیگا ۔ انہوں نے خود وزیراعظم کی موجودگی میں پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ این آر سی سارے ملک میں نافذ ہوگا ۔ اس کے باوجود وزیر اعظم ایک عوامی ریلی سے خطاب میں یہ دعوی کرتے ہیں کہ ان کی حکومت نے ابھی تک این آر سی پر کوئی تبادلہ خیال نہیں کیا ہے ۔ اترپردیش میں جہاں بی جے پی حکومت ہے این آر سی کا عمل ایک طرح سے شروع بھی کردیا گیا ہے ۔ چیف منسٹر ہریانہ منوہر لال کھتر نے ریاست میں این آر سی لاگو کرنے کا اعلان کیا ہے ۔ بی جے پی کے دوسرے قائدین بھی مسلسل این آر سی لاگو کرنے کے اعلانات کر رہے ہیں اور اس سب کے باوجود وزیر اعظم اس پر غلط بیانی کر رہے ہیں۔
اسی طرح وزیر اعظم نے ایک اور دعوی بھی کیا تھا کہ ہندوستان میں کوئی ڈیٹنشن سنٹر قائم نہیں کیا گیا ہے ۔ یہ بھی صریح جھوٹ ہے ۔ خود مرکزی وزراء نے پارلیمنٹ کو مطلع کیا تھا کہ آسام میں چھ ڈیٹنشن مراکز قائم ہیں۔ اس کے علاوہ بی جے پی کے اقتدار والی ریاست کرناٹک میں آج ہی ایک ڈیٹنشن سنٹر قائم کردیا گیا ہے ۔ اس کے علاوہ ملک کی تقریبا ہر ریاست میں ڈیٹنشن مراکز قائم کرنے کا عمل شروع ہوچکا ہے ۔ یہ عمل بی جے پی کے اقتدار والی ریاستوں میں اور بھی تیز ہوگیا ہے ۔ایک طرف تو ملک کے وزیر داخلہ ( جو بی جے پی کے صدر بھی ہیں ) سارے ملک میں این آر سی لاگو کرنے کی بات کرتے ہوئے سماج میں خوف اور اندیشے پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو دوسری طرف حکومت کے سربراہ نریندر مودی اس سے انکار کرتے ہیں۔ یہ ایک کھلا جھوٹ ہے جو سارے ٹی وی چینلوں پر بھی دکھایا جارہا ہے ۔ یہ تضاد بیانی بھی ایسا لگتا ہے کہ بی جے پی اور مرکزی حکومت کی حکمت عملی کا ایک حصہ ہی ہو کیونکہ جس شدت سے سارے ملک میںسی اے اے اور این آر سی کے خلاف احتجاج چل رہا ہے اس سے بی جے پی زیر قیادت مرکزی حکومت کو تشویش ضرور لاحق ہوگئی ہے ۔ فی الحال لچھے دار باتوں سے اور حقائق کو جھٹلاتے ہوئے مرکزی حکومت احتجاج کو اور اس کی شدت کو کم کرنا چاہتی ہے لیکن مرکز کی یہ کوششیں کامیاب ہونے والی نہیںہیں۔
ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا مرکزی حکومت کی قیادت نریندر مودی کر رہے ہیں یا پھر عنان اقتدار امیت شاہ کے ہاتھ میں ہیں۔ مودی کسی این آر سی سے انکار کرتے ہیں اور ملک کی تقریبا ہر ریاست کا دورہ کرتے ہوئے امیت شاہ این آر سی نافذ کرنے کے اعلانات کرتے ہیں۔ یہ حکومت کی دروغ گوئی اور تضاد بیانی ہے ۔ اس کا شکار ملک کے عوام کو نہیں ہونا چاہئے اور نہ ہی ملک کے نوجوان ‘ جنہوں نے اس تحریک کی بنیاد ڈالی ہے ‘ اس کا شکار ہونے کو تیار نہیں۔ وہ حکومت کی غلط بیانیوں سے واقف ہوچکے ہیں اور اس مسئلہ پر حکومت کو ناکوں چنے چبوانے کیلئے ان طلبا اور نوجوانوں نے کمر کس لی ہے ۔