بابری مسجد فیصلہ: مستقبل کیلئے خدشات

   

رام پنیانی

سپریم کورٹ نے بابری مسجد۔ رام جنم بھومی تنازع میں فیصلہ سنایا کہ ساری اراضی جہاں مسجد 1528ء سے 6 ڈسمبر 1992ء تک قائم رہی، ’ہندو فریق‘ رام جنم بھومی نیاس کو دے دی جائے، جسے وی ایچ پی نے قائم کیا ہے۔ واضح رہے کہ مسجد کو اُس روز لال کرشن اڈوانی، مرلی منوہر جوشی اور اوما بھارتی کی قیادت میں آر ایس ایس پریوار کی جانب سے دن دھاڑے منہدم کیا تھا۔ فیصلے کے مطابق حکومت کو ایک ٹرسٹ بنانا چاہئے جسے مندر کی تعمیر کی نگرانی کرنا چاہئے اور مسلمانوں، سنی وقف بورڈ کو ایودھیا میں کسی نمایاں جگہ پر پانچ ایکڑ اراضی دی جانی چاہئے۔ سپریم کورٹ نے اعتراف کیا کہ اُس مقام پر نماز کی ادائیگی 1949ء تک ہوتی رہی تھی جب رام للا کی مورتیاں مجرمانہ طور پر رات دیر گئے مسجد میں نصب کردی گئیں۔ سپریم کورٹ کی منطق ہے کہ 1856ء سے یہ مقام لارڈ رام کی پیدائش سے وابستہ رہا تھا۔ اس کے ثبوت کا حوالہ نہیں دیا گیا، یہاں واحد بنیاد یہی ہے کہ ہندو اسے لا رڈ رام کی جائے پیدائش مانتے ہیں! عدالت نے کہا ہے کہ داخلی برآمدے کی زمین پر مسلمانوں کا دعویٰ مسجد کے حق میں ماننے کے قابل نہیں ہے۔ اور یہ کہ مسلمان کوئی ثبوت پیش کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے ہیں کہ وہ 1857ء سے قبل داخلی برآمدے پر کلی قبضہ رکھتے تھے۔ عدالت کے مطابق ’’ہندوؤں نے بیرونی برآمدے پر قبضہ کی ملکیت کا واضح دعویٰ قائم کیا ہے، جس کا عملی ثبوت رام چبوترہ پر دیرینہ، مسلسل اور بلاتوقف پوجا کرنا اور دیگر مذہبی اہمیت کے پہلو ہیں‘‘۔ اور اس لئے یہ فیصلہ ہے!

فیصلہ کا پیش خیمہ
عدالتی فیصلے پر خوشی میں یا اس کے خلاف احتجاجوں کے سبب تشدد کے اندیشے پر مسلح افواج، پولیس کو زبردست حرکت میں لایا گیا تھا۔ خوش قسمتی سے کوئی تشدد برپا نہیں ہوا ہے۔ شاید یاد ہو کہ 1992ء میں بابری مسجد انہدام کے بعد ممبئی میں شیوسینا کی قیادت میں خوشی کے جلوس پر تشدد بھڑک اٹھا تھا۔ جہاں ’ہندو برادری‘ کی طرف سے لال کرشن اڈوانی جیسے لیڈروں کو اپنا موقف جائز ٹہرائے جانے کا احساس ہورہا ہے، وہیں اکثر مسلمانوں کو عدالتی فیصلہ ایک سے زیادہ وجوہات کی بناء مان لینا ہوگا۔ جہاں تک فیصلہ کی نوعیت ہے، ایک سابق جج نے اسے بہترین انداز میں پیش کیا ہے۔ ریٹائرڈ جسٹس گنگولی نے کہا ہے، ’’دستور کے طالب علم کی حیثیت سے میرے لئے اسے قبول کرنا مشکل ہے‘‘۔ ممتاز قانونی شخصیت فیضان مصطفیٰ، وائس چانسلر نلسار لا یونیورسٹی نے بیان کیا ہے، ’’ایودھیا فیصلہ ثبوت پر مبنی قانون کیلئے جھٹکہ ہے‘‘۔ بابری مسجد کی طویل جامع دستاویزی تاریخ میں دیکھیں تو یہ واضح ہوجاتا ہے کہ فیصلہ اس مسجد کی معروف تاریخ اور اس کے اطراف پیش آئے واقعات سے میل نہیں کھاتا ہے۔ جہاں کسی کو بھی اعتراف ہے کہ یہ فیصلہ عصری ہندوستانی تاریخ کے ایک طویل اور تکلیف دہ باب کو بند کردے گا، وہیں امید ہے کہ اس طرح کی دیگر مساجد جو آر ایس ایس پریوار کی انہدامی فہرست میں رہی ہیں، ان کے ساتھ اس طرح کا حشر نہیں ہوگا۔

پس منظر
اس تنازع کا مختصر پس منظر پیش ہے تاکہ اس طریقہ کار کو سمجھا جاسکے کہ کس طرح بابری مسجد مسئلہ کو متنازع بنایا گیا، کس طرح زبردست ہجوم کو اکٹھا کرتے ہوئے اسے منہدم کیا گیا اور اچھی طرح منصوبہ بند انہدام کا سیاسی نتیجہ کیا رہا، جسے ہندو قوم پرستانہ ایجنڈہ کے تحت انجام دیا گیا۔ انہدام کی مجرمانہ حرکت ایسا اقدام رہا جسے اعتقاد کے بل بوتے پر عمل میں لایا گیا کہ یہ لارڈ رام کی جائے پیدائش ہے۔ جیسا کہ بابری مسجد کی تعمیر 1528ء میں شہنشاہ بابر کے سپہ سالار میر باقی نے کی تھی۔ اس کے بارے میں 1855ء تک کوئی تنازع نہیں تھا، جب مسجد کے بیرون قائم کئے گئے چبوترہ کے مسئلہ پر بیراگیوں اور مسلمانوں کے درمیان جھڑپ ہوئی۔ برطانوی حکمرانوں نے تین گنبد والی مسجد کے ساتھ داخلی برآمدہ اور بیرونی علاقہ جہاں کئی ہندو مورتیاں پائی گئی تھیں، اُن کے درمیان رکاوٹ بنادی۔ یہ معاملہ جدوجہد آزادی کے دوران کبھی نہیں اُٹھا جبکہ ساری قوم سامراجی قوتوں کے خلاف لڑائی میں متحد ہورہی تھی۔
یہ مسئلہ ماضی قریب میں 22 اور 23 ڈسمبر 1949ء کی رات شروع ہوا، جب بعض عناصر نے مسجد کے قفل توڑے اور مسجد میں رام للا کی مورتیاں نصب کردیئے۔ اس مجرمانہ حرکت تک وہاں نماز کی ادائیگی ہوتی رہی تھی۔ مورتیوں کی غیرقانونی انداز میں تنصیب کے بعد مستقبل میں گڑبڑ کے اندیشے پر اُس وقت کے وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے یو پی چیف منسٹر جی بی پنت کو مکتوب لکھا کہ مورتیوں کو ہٹا دیا جائے۔ متعلقہ ڈسٹرکٹ کلکٹر کے کے نیئر نے احکام کی تعمیل نہیں کی اور پنت نے اس پر مناسب کارروائی نہیں کی۔ وہی نیئر بعد میں بی جے پی کے سابقہ اوتار بھارتیہ جن سنگھ میں شامل ہوا۔
1980ء کا دہا : مسائل اُبھر آئے
1980ء کے دہے میں آر ایس ایس پریوار زیادہ سرگرم ہوگیا اور رام مندر مسئلہ اُبھارا گیا۔ شاہ بانو کے بارے میں سپریم کورٹ فیصلہ کو پلٹانے پر اسے تقویت ملی۔ مسجد کے قفل جو 1949ء میں چوری چھپے انداز میں مورتیاں نصب کئے جانے پر ڈالے گئے تھے، مختلف نوعیت کے سیاسی دباؤ پر کھول دیئے گئے۔ یہ موجودہ دور کی بڑی غلطیوں میں سے ہے، جس نے آر ایس ایس پریوار کی جانب سے مزید چالوں کیلئے راہ ہموار کی۔
وی ایچ پی نے اس مقام پر عظیم الشان رام مندر کی تعمیر کی مہم شروع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ لارڈ رام کی ٹھیک اسی مقام پر پیدائش ہوئی تھی۔رام شیلا پوجن اور دیگر سرگرمیوں کے ذریعے عمومی عقیدہ اُبھارا گیا۔ اس کی خوب تشہیر کی گئی کہ لارڈ رام کی پیدائش اسی مقام پر ہوئی تھی، وہاں رام مندر تھا، جسے منہدم کرکے بابر نے مسجد تعمیر کرائی۔ ہم موجودہ دور میں دیکھ سکتے ہیں کہ کس طرح سیاسی مقاصد کیلئے عقیدہ کو اُبھارا جاتا ہے۔ یہ عقیدہ سیاسی اور سماجی حرکتوں کے ذریعے پیدا کیا گیا۔
آیا ایودھیا جہاں لارڈ کی پیدائش سمجھی جاتی ہے، وہی ایودھیا ہے جہاں مسجد واقع تھی، مشکوک معاملہ ہے۔ ان سب کے علاوہ موجودہ ایودھیا میں کئی منادر ہیں جو اسی طرح کے دعوے کرتے ہیں کہ ان کی تعمیر لارڈ رام کی جائے پیدائش پر کی گئی ہے۔ اس کی خوب تشہیر کی گئی کہ بابری مسجد ’بیرونی حکمرانی‘ اور مسلم حکمرانوں کی جانب سے ہندوؤں کے خلاف مظالم کی علامت ہے۔ یہ فرقہ وارانہ تاریخ نویسی سے مزید انحراف ہے، جو بادشاہوں کی حکمرانوں کو مذہب کے شیشے سے دیکھتا ہے۔ یہ تاریخ نویسی برطانیہ والوں نے متعارف کرائی تاکہ ’تقسیم کرو اور حکمرانی کرو‘ کی پالیسی پر عمل کرسکیں۔ شہنشاہ بابر کی ہمایوں کو وصیت میں ہندو منادر کے تئیں بابر کی پالیسی کی واضح صراحت ہے۔ وہ اپنے بیٹے ہمایوں کو تاکید کرتا ہے کہ ہندو مندروں کو نہ توڑے کیونکہ رعایا میں اکثریت ہندو ہیں۔ جیسا کہ نشاندہی کی گئی ہے کہ اُس مقام پر مندر تھا، یہ برطانوی حکمرانوں کی متعارف کردہ فرقہ وارانہ تاریخ نویسی کا حصہ تھا۔ ایک برطانوی آفیسر مسز اے ایف بیووریجنے بابر نامہ کا ترجمہ کرتے ہوئے ایک وضاحتی نوٹ لکھا کہ ہوسکتا ہے وہاں مندر کا کچھ حصہ رہا ہو جس پر مسجد تعمیر کی گئی۔ (ایس گوپال، Anatomy of Confrontation، پنگوئن)۔ یہی وہ نکتہ ہے جو بعد میں بڑھا چڑھا کر پیش کرتے ہوئے دعویٰ کیا گیا کہ وہاں مندر تھا، لارڈ رام کا مندر، لارڈ رام کی جائے پیدائش کا مندر تھا۔ ایک طرح سے 1992ء میں بابری مسجد کا انہدام اسی برطانوی پالیسی کا نتیجہ رہا جہاں مخصوص مسلم بادشاہوں کو مندروں کو مسمار کرنے والوں کے طور پر پیش کیا گیا۔ یہ بھی سچ ہے کہ کئی مسلم بادشاہوں نے ہندو مندروں کو کافی عطیے بھی دیئے، جو تاریخ کے موجودہ غالب نظریات میں کہیں نہیں ملتا اور کبھی بیان ہوتا ہے۔
( جاری ہے …)
ram.puniyani@gmail.com