ٹرمپ کے کشمیر پر تبصرہ کی وجہہ سے افغانستان پر ٹرمپ او رعمران کے درمیان بات چیت کی اہمیت کو دیکھنے سے ہندوستان کوروک سکتا ہے
بنیادی طورپر ڈپلومیسی دراصل الفاظ کی دستکاری ہوتی ہے۔ اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ حکومت کی اہم موصلات سے دوستوں کو دشمنوں کو یقینی طورپر واقف رکھنا ہے۔
اپنی تقریروں او ربیانات میں اسی وجہہ سے سفیر حضرات الفاظ کے استعمال کافی سونچ سمجھ کر کرتے ہیں۔بعض اوقات وہ جان بوجھ کر متنازعہ موضوعات کو چھیڑ بھی دیتے ہیں۔
تاہم امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ وائٹ ہاوز کی رابطہ ٹیم سے بڑے پیمانے پر منقسم ہوگئے ہیں۔ عام طور پر ٹرمپ کے ٹوئٹس بھی
ہمیشہ سچائی سے انحراف کرتے نظر آتے ہیں اور نہ ہی ان کی وہ حقائق پر مبنی ہوتی ہے۔
ہندوستان کو چاہئے کہ پیر کے روز ٹرمپ کی پاکستان کے وزیراعظم عمران کے ساتھ میڈیا کے روبرو آمد ایک چٹکی نمک سے زیادہ اہمیت کی حامل نہیں ہے۔
اس کی مثال کاتقابل ٹرمپ کاوزیراعظم نریندر مودی کے حوالے سے کشمیر پر ثالث کے طور پر پیش ہونے اور ان کی ایسا کرنے کی خواہش پر مشتمل حالیہ بیان ہے۔
کچھ دن قبل ٹرمپ کا وہ دعوی جس میں کبھی روپوشی کو ترجیح نہ دینے والے ایل ای ٹی کے سربراہ حافظ سعید کی پاکستان کے لئے ”تلاش“ کو امریکی دباؤ کانتیجہ قراردیاگیاتھا۔
مذہبی جبر کا سامنے کرنے والے دنیا بھر کے افراد پرمشتمل گروپ سے وائٹ ہاوز میں ملاقات کے دوران ٹرمپ نے جب بات چیت روہنگیاکی طرف رخ کی تواستفسار کیاتھا کہ ”میانمار کہاں پر ہے“۔
اگر ٹرمپ اپنے الفاظ سے بے پروا ہ ہیں تو ہندوستان اورپاکستان کیوں اس قدر بے چین ہوجاتے ہیں بالخصوص جب معاملہ جموں او رکشمیر پر آجاتا ہے۔
لفظ”ثالثی“ اور ”بین الاقوامیت“ جیسا آجاتا ہے تو دہلی کی جانب سے فوری اور برہمی کا ردعمل دیاگیا۔
اسلام آباد کبھی بھی کشمیر کے سوال میں دیگر طاقتوں اور تنظیموں کو آنے کا موقع نہیں دیتا۔ الفاظ اہمیت کے حامل ہیں مگر کاروائی سے زیادہ اہم نہیں ہیں۔
کسی ایک لیڈر کا ہر ریمارکس اس کی اہم پالیسی نہیں مانا جاتا۔
مودی کی قیادت میں لفظ ثالثی پر دہلی ہر وقت چھلانگ نہیں لگائی ہے‘ اور ان میں سے بہت سارے سیاسی مفادات کی خاطر بول رہے تھے جس کے لئے وہ اسی طرز کے ردعمل کے حقدار بھی تھے
۔ مگر میڈیااور سیاسی جماعتوں کا معاملہ میں چھلانگ لگانا واجبی ہے۔جب ٹرمپ نے راست طور پر مودی کی جانب سے ثالثی کے لئے استفسار کا مخصوص دعوی کیا تو خارجی دفتر کو اس پر فوری اورمنھ توڑ جواب دینے کا اختیار ہے۔
حکومت نے بھی پارلیمنٹ میں ٹرمپ کے دعوی کا جواب دیا۔ دہلی کے ساتھ خصوصی نقصان کا احساس کرتے ہوئے جو ہمیشہ کشمیر پر تیسرے فریق کی مداخلت سے انکار کرتا ہے‘
امریکہ اسٹیٹ محکمہ نے ہندوستانیوں کے جذبات کو محسوس کیا مگر ٹرمہ غلط ہے یہ کہنے سے گریز کے ساتھ اس طرح کا احساس منظر عام پر آیاہے۔
اتفاق کی بات یہ ہے کہ ٹرمپ کے کشمیر کے متعلق تبصرہ سے ٹرمپ او رعمران کے درمیان افغانستان پر ہوئی با ت چیت کی بڑے پیمانے پر اہمیت کو روک سکتا ہے۔
طویل مدت سے چل رہی افغانستان میں امریکی جنگ کا ٹرمپ خاتمہ چاہتے ہیں اور ان کی خواہش ہے کہ پاکستان انہیں اس سے نکال کر طالبان کے ساتھ امن کے معاہدے کو عملی جامعہ پہنائے