راجستھان بحران ‘ جلد یکسوئی ضروری

   

رہ گذارِ حیات میں ہم نے
خُود نئے راستے نکالے ہیں
راجستھان بحران ‘ جلد یکسوئی ضروری
ہندی پٹی کی ریاست راجستھان میں ان دنوں زبردست سیاسی بحران چل رہا ہے ۔ کانگریس میں سچن پائلٹ کی بغاوت نے حالات کو سنگین بنادیا ہے ۔ سچن پائلٹ نے ابھی تک حالانکہ کانگریس پارٹی سے علیحدگی اختیار نہیں کی اور نہ ہی انہوں نے بی جے پی میں شمولیت اختیار کی ہے لیکن انہوں نے ریاست میں پارٹی کی اشوک گہلوٹ حکومت کے اقلیت میں آجانے کا دعوی ضرور کیا ہے ۔ ابتدائی حالات میں عملا خاموشی دکھانے والی بی جے پی ایسا لگتا ہے کہ اس بار بھی سیاسی حالات کا استحصال کرنے کی کوششوں کا محتاط انداز میں آغاز کرچکی ہے ۔ کانگریس کی جانب سے الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے اپنے سینئر قائدین کو استعمال کرتے ہوئے ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کی کوششوں کا آغاز کردیا ہے ۔ اس سلسلہ میں پارٹی نے مرکزی وزیر گجیندر شیخاوت اور دوسرے قائدین کے آڈیو ٹیپ بھی جاری کئے ہیں اور یہ دعوی کیا ہے کہ ان ٹیپس میں ثبوت موجود ہے کہ بی جے پی کی جانب سے کانگریس کے ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کانگریس کے الزامات پر بی جے پی نے اپنے قائدین کے فون ٹیاپ ہونے کا الزام عائد کیا ہے ۔ بی جے پی کے اس الزام سے کانگریس کے دعووں کو تقویت ملتی ہے کہ بی جے پی کے قائدین ارکان اسمبلی کی خرید و فروخت کی کوششیں کر رہے ہیں اور جو آڈیو ٹیپ جاری کئے گئے ہیں ان میں آواز واقعی بی جے پی قائدین کی ہے ۔ اگر ان میں بی جے پی کی قائدین کی کوئی آواز نہیں ہوتی تو پھر فون ٹیپ کئے جانے کا الزام عائد نہ کیا جاتا ۔ اس کے علاوہ اب تک بی جے پی قائدین نے اپنی آواز کے نمونے دیتے ہوئے تحقیقات میں تعاون کرنے کا بھی اعلان نہیں کیا ہے ۔ ان سے بھی کانگریس کے الزامات اور عوام میں پائے جانے والے شبہات کو تقویت ملتی ہے ۔کانگریس پارٹی میں شروع ہوا قیادت کا بحران اب ایسا لگتا ہے کہ ایک بڑے سیاسی اکھاڑہ میں تبدیل ہو رہا ہے اور یہ بحران اب بی جے پی کیلئے بھی ایک موقع بن سکتا ہے ۔ بی جے پی اس موقع سے کس حد تک فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوتی ہے یہ ابھی واضح نہیں ہے ۔
کانگریس نے سچن پائلٹ کو سزا بھی دیدی ہے ۔ انہیں ڈپٹی چیف منسٹر کے عہدہ سے اور پردیش کانگریس کی صدارت سے ہٹادیا گیا ہے ۔ انہیں پارٹی سے خارج نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی مخالف پارٹی سرگرمیوں کی کوئی نوٹس جاری کی ہے ۔ سچن پائلٹ نے بھی پارٹی میں علم بغاوت بلند تو کیا ہے لیکن انہوں نے بھی ابھی پارٹی نہیں چھوڑی ہے لیکن انہوں نے نا اہل قرار دئے جانے کی کوششوں کو عدالت میں چیلنج کردیا ہے ۔ اس طرح یہ واضح ہوچکا ہے کہ سچن پائلٹ فی الحال تو کانگریس میں برقرار رہتے ہوئے قانونی راستوں کو اختیار کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ یہ بھی الزامات عائد کئے جا رہے ہیں کہ سچن پائلٹ اس وقت تک کانگریس سے علیحدگی اختیار نہیں کرینگے جب تک بی جے پی میں بھی انہیں پوری اہمیت نہیں دی جاتی اور نہ وزارتی عہدوں پر کوئی سمجھوتہ ہوجاتا ہے ۔ سچن پائلٹ چیف منسٹر کی کرسی چاہتے ہیں اور کانگریس میں بھی انہوں نے کم از کم آئندہ حکومت میں قیادت دینے کا مطالبہ کیا ہے ۔ کانگریس پارٹی نے ابھی بھی اس مسئلہ پر کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے حالانکہ جو حالات راجستھان میں پیدا ہوئے ہیں وہ پارٹی کیلئے اچھے نہیں کہے جاسکتے ۔ پارٹی کو اس بحران کی کیفیت سے ممکنہ حد تک جلدی نکلنے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے ۔ اگر تمام تر تگ و دو کے بعد اشوک گہلوٹ کی حکومت کو بچالیا جاتا ہے تب بھی پارٹی اور حکومت دونوں کیلئے خطرہ ضرور برقرار رہے گا اور اس کا بی جے پی کی جانب سے کبھی بھی استحصال کیا جاسکتا ہے ۔
سچن پائلٹ کے جو مطالبات ہیں ان پر کوئی فیصلہ کرنا کانگریس قیادت کا کام ہے اور وہ پارٹی کے مفاد کو اور مستقبل کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس تعلق سے کوئی فیصلہ کرسکتی ہے لیکن جو سیاسی اکھاڑہ کی کیفیت پیدا ہوئی ہے اور اس میں ہر کوئی فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہا ہے یہ نہ صرف راجستھان کے عوام کیلئے اچھی علامت نہیں ہے بلکہ خود جمہوریت کیلئے بھی ٹھیک نہیں ہے ۔ اس کیلئے بی جے پی کو مورد الزام ٹہرانے کے علاوہ حالات کی سنگینی سے بھی انکار کی گنجائش نہیں ہے ۔ اس صورتحال میں کانگریس قیادت کو بسرعت حرکت میں آنے کی ضرورت ہے ۔ جو مسائل پیدا ہوئے ہیں ان کی یکسوئی اب بھی کانگریس قیادت ہی کرسکتی ہے ۔ پارٹی کے دو متحارب گروپس کو یکجا کرنے اور اختلافات و تنازعات کی یکسوئی کیلئے کانگریس پارٹی کو وقت ضائع کئے بغیر حرکت میں آتے ہوئے صورتحال کو قابو سے باہر ہونے سے بچانا چاہئے ۔