پیرس اولمپک قومی باکسرس کے لئے راہ مشکل

   

نئی دہلی۔ ہندوستانی باکسروں نے کامن ویلتھ گیمز 2022 میں عمدہ مظاہرے کئے ہیں اور وہ تین گولڈ، ایک سلور اور تین برونز کے ساتھ باکسنگ کے میڈلس کی فہرست میں دوسرے نمبر پر رہے تاہم اگر کوئی اس کا 2018 کے گولڈ کوسٹ شو (جہاں نومیڈلس) سے موازنہ کرے تو اس بار مکہ بازی تھوڑی کمزور پڑگئی ہے ! اچھی خبر یہ ہے کہ کچھ نوجوان باکسرس متاثر کرنے میں کامیاب رہے اور مستقبل کے اچھے امکانات ہو سکتے ہیں۔ اور بری خبر یہ ہے کہ کچھ بڑے نام ناکام ہو گئے، جس سے باکسنگ فیڈریشن آف انڈیا قدرے پریشان ہے اور کیوں نہ ہو ؟ کیونکہ اجے سنگھ کے ماتحت فیڈریشن اپنے باکسرس پر بہت محنت کر رہی ہے اور وہ تمام سہولیات فراہم کر رہی ہے جن کی انہیں ضرورت ہے۔ آئی اے این ایس سے بات کرتے ہوئے، ایک باکسنگ کوچ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ اگر باکسر پیرس اولمپکس میں میڈل حاصل کرنا چاہتے ہیں تو انہیں واقعی سخت محنت کرنی ہوگی۔ کامن ویلتھ گیمز میں قرعہ اندازی نسبتاً آسان تھی لیکن پھر ہمارے زیادہ تر ہونہار باکسر پوڈیم فنش کرنے میں بھی ناکام رہے۔ میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ایک باکسر نے سخت محنت نہیں کی لیکن کامن ویلتھ گیمزگولڈ ایک ایسی چیز ہے جس سے آپ کو یہ اعتماد ملتا ہے کہ آپ مزید بہتر کرسکتے ہیں۔ ایشیاڈ اور پھر اولمپکس میں امیدیں اور بھی بڑھ جائیں گی ۔ انہوں نے مزید کہا 2018 میں، ہمارے چھ باکسر 12 رکنی ٹیم میں سے فائنل میں پہنچے تھے۔ لیکن اس بار صرف چار فائنل میں رسائی حاصل کرسکے ۔ اس لیے ہمیں واقعی بہت محنت کرنے کی ضرورت ہے۔ باکسنگ یقینی طور پر ہندوستان کے بہترین کھیلوں میں سے ایک ہے جس نے متعدد اولمپک میڈل حاصل کیے ہیں۔ شوٹنگ، کشتی اور ہاکی کے علاوہ، باکسنگ ہندوستان کے سب سے زیادہ نتیجہ خیز میڈل جیتنے والے کھیلوں میں سے ایک ثابت ہوا ہے۔ یہاں تک کہ پچھلے سال ٹوکیو اولمپکس میں آسام کی لولینا بورگوہین نے ملک کے لیے برونز میڈل جیتا تھا۔ لولینا اولمپکس میں اپنے ملک کی نمائندگی کرنے والی ریاست کی پہلی خاتون بھی بن گئیں۔ تاہم حال ہی میں ختم ہونے والے کامن ویلتھ گیمز میں ان کے مظاہرے نے کئی سوالات اٹھائے ہیں۔ معلوم ہوا ہے کہ باکسر نے اپنی نظریں اب پیرس پر جما لی ہیں اور یہ ان کے ساتھ ساتھ ملک کے لیے بھی اچھا ہوگا کیونکہ ماضی کی شان اب تاریخ بن چکی ہے۔