کہ اب مزاج بنالیجئے شکاری کا

,

   

کرناٹک… نریندر مودی بمقابلہ پرینکا گاندھی
کشمیر فائلز کے بعد کیرالا اسٹوری … مخالف مسلم پروپگنڈہ

رشیدالدین
کرناٹک اسمبلی چناؤ اگرچہ ایک ریاست تک محدود ہیں لیکن مرکزی حکومت نے اسے منی جنرل الیکشن میں تبدیل کردیا ہے ۔ کسی بھی ریاست کے الیکشن کا تعلق مقامی مسائل تک محدود ہوتا ہے اور قومی قائدین کی حصہ داری برائے نام ہوتی ہے لیکن بی جے پی نے کرناٹک میں ساری قومی قیادت کو جھونک دیا ہے ۔ وزیراعظم نریندر مودی ، وزیر داخلہ امیت شاہ اور بی جے پی صدر جے پی نڈا دہلی چھوڑ کر کرناٹک میں کیمپ کرچکے ہیں۔ یہ صورتحال صرف کرناٹک تک محدود نہیں بلکہ جس ریاست میں بھی اسمبلی الیکشن ہوئے، دہلی کے دارالحکومت کو چھوڑ کر مودی ۔ امیت شاہ جوڑی نے الیکشن والی ریاست میں ڈیرہ جمادیا۔ بی جے پی کے پاس اس جوڑی کے علاوہ کوئی اور دکھائی نہیں دیتا۔ کرناٹک میں بی جے پی حکومت کے عوامی فیصلہ کو محض تین دن باقی ہیں اور آخری مرحلہ کی انتخابی مہم میں بی جے پی نے اپنی ساری طاقت جھونک دی ہے۔ وزیراعظم نریندر مودی نے ایک ہفتہ تک کرناٹک کو اپنا دوسرا گھر بنالیا۔ ریالی اور عام جلسوں کے ذریعہ جملہ بازی کی بوچھار جاری ہے جو مودی کا خاص وصف ہے۔ بی جے پی نے کرناٹک عوام کے لئے ایسا کچھ نہیں کیا جسے کارنامہ کے طور پر پیش کیا جائے۔ الیکشن سے عین قبل تمام سروے اور اوپنین پول کانگریس کی کامیابی کی پیش قیاسی کر رہے ہیں۔ حتیٰ کہ اڈانی زیر کنٹرول ٹی وی چیانل نے بھی بی جے پی کی شکست کا اشارہ دیتے ہوئے مودی ۔امیت شاہ کی نیند اڑادی ہے۔ کیا واقعی کرناٹک کے رائے دہندے بی جے پی سے بیزار ہوچکے ہیں ؟ بسواراج بومائی حکومت کا دوسرا نام عوام میں 40 فیصد ہوچکا ہے۔ بی جے پی کی کامیابی کے لئے آر ایس ایس اور سنگھ پریوار کی تنظیمیں متحرک ہوچکی ہے، باوجود اس کے کہ اوپنین پول کے نتائج مختلف ہیں۔ بی جے پی نے مقامی مسائل کی جگہ قومی اور متنازعہ مسائل کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے۔ مودی کے نام اور چہرہ پر ووٹ حاصل کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ بی جے پی نے انتخابی منشور میں یکساں سیول کوڈ اور این آر سی جیسے متنازعہ امور کو شامل کرتے ہوئے مذہبی بنیاد پر عوام کو تقسیم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اقتدار کے 5 برسوں میں بی جے پی ہندو مسلم کی سیاست کرتی رہی اور الیکشن بھی فرقہ وارانہ ایجنڈہ پر جیتنے کی کوشش ہے۔ بی جے پی کے انتخابی منشور کا جواب کانگریس نے اپنے منشور کے ذریعہ دیا ہے۔ کانگریس نے جرأت مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے بجرنگ دل اور پی ایف آئی پر پابندی کا وعدہ کیا۔ کانگریس نے 4 فیصد مسلم تحفظات کی بحالی کا وعدہ کرتے ہوئے اقلیتی رائے دہندوں کا دل جیتنے کی کوشش کی ہے ۔ کرناٹک کے عوام دراصل نفرت کے ایجنڈہ سے عاجز آچکے ہیں۔ نریندر مودی نے بجرنگ دل پر پابندی کے کانگریس کے وعدہ کو ہندو رائے دہندوں میں اشتعال پیدا کرنے کیلئے استعمال کیا۔ وزیراعظم نریندر مودی نے رائے دہی کے وقت ایک مذہبی نعرہ لگانے کا مشورہ دیتے ہوئے انتخابی قواعد کی صریح خلاف ورزی کی ہے۔ مذہب کے نام پر ووٹ مانگنا جرم ہے لیکن وزیراعظم نے اس کا ارتکاب کیا لیکن الیکشن کمیشن اور گودی میڈیا پر سناٹا طاری ہے۔ الیکشن کمیشن نے اشتعال انگیز بیانات کیلئے بی جے پی کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جبکہ کانگریس قائدین کو پابند کیا گیا ۔ جہاں تک بجرنگ دل پر پابندی کا سوال ہے، یہ کوئی نئی بات نہیں۔ جارحانہ فرقہ پرست اور انتہا پسند تنظیموں کے خلاف بی جے پی حکومتوں میں بھی کارروائی کی گئی ۔ 2014 ء میں گوا کے بی جے پی چیف منسٹر منوہر پاریکر نے سری رام سینا پر پابندی کا اعلان کیا تھا ۔ اس تنظیم کے نام میں بھی رام شامل ہیں، اس کا مطلب رام کی توہین نہیں ہے لیکن کرناٹک میں بجرنگ دل پر پابندی کو مذہب سے جوڑنے کی کوشش جاری ہے۔ مودی کی انتخابی مہم بظاہر جارحانہ ہے لیکن پس پردہ شکست کا خوف جھلک رہا ہے ۔ مودی ۔ امیت شاہ آخر کب تک پارٹی کی ڈوبتی کشتی کو سہارا دے پائیں گے۔ کرناٹک میں بی جے پی ہارتی ہے تو اس کا اثر راجستھان ، مدھیہ پردیش ، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ کے چناؤ پر ضرور پڑے گا۔کرناٹک میں ابتداء میں سہ رخی مقابلہ دکھائی دے رہا تھا لیکن درحقیقت بی جے پی اور کانگریس کے درمیان اصل مقابلہ ہے۔ جنتا دل سیکولر اپنی بقاء کی جنگ لڑ رہی ہے۔ سیکولر ووٹ کی تقسیم روکنے کیلئے عوامی تنظیموں اور جہد کاروں کی مساعی کارگر ثابت ہوئی۔ مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں نے بی جے پی کو شکست دینے کی صلاحیت رکھنے والے امیدواروں کے حق میں متحدہ رائے دہی کا فیصلہ کیا ہے ۔ بعض چھوٹی مسلم جماعتوں نے بھی مقابلہ سے گریز کیا ہے ۔ مسلم لیگ کا بعض علاقوں میں اثر ہے لیکن وہ مقابلہ سے دور ہے۔ مجلس نے صرف دو نشستوں پر مقابلہ کا فیصلہ کیا ہے ۔ فرقہ پرست طاقتوں کے خلاف یہ سیکولر طاقتوں کی نئی صف بندی ہے۔ اگر جنتا دل سیکولر ووٹ کاٹنے میں ناکام رہتی ہے تو کانگریس کو کامیابی سے کوئی طاقت نہیں روک پائے گی۔ ویسے بھی ملک میں بی جے پی کے خلاف اپوزیشن اتحاد کے امکانات روشن ہیں۔ مرکز کی انتقامی کارروائیوں سے عاجز آکر سیکولر طاقتوں نے کانگریس کی مخالفت ترک کرتے ہوئے اتحاد کی تائید کی ہے۔ لوک سبھا انتخابات میں وزارت عظمیٰ کا امیدوار کون ہوگا اس کا فیصلہ بعد میں ہوسکتا ہے ۔ چیف منسٹر بہار نتیش کمار نے اپوزیشن اتحاد کی کوششوں میں قائدانہ رول ادا کیا ہے۔ کانگریس جو دو سال پہلے تک کمزور موقف میں دکھائی دے رہی تھی، راہول گاندھی کی بھارت جوڑو یاترا نے ایک طرف کانگریس کو مستحکم کیا تو دوسری طرف راہول گاندھی کی قائدانہ صلاحیتوں کو نکھارنے کا کام کیا۔ ہتک عزت معاملہ میں راہول گاندھی کو عدالت سے سزا ، لوک سبھا کی رکنیت ختم کرنا اور سرکاری قیامگاہ کا جبراً تخلیہ جیسی کارروائیوں نے کانگریس کے حق میں ہمدردی کی لہر پیدا کردی ہے۔ راہول گاندھی کے مودی اور بی جے پی کے خلاف تیر نشانہ پر لگ رہے ہیں۔ کرناٹک کی مہم میں نریندر مودی بمقابلہ پرینکا گاندھی مہم دیکھی گئی ۔ کرناٹک ملکارجن کھرگے کی آبائی ریاست ہے ۔ کانگریس کی صدارت سنبھالتے ہی پارٹی کو ہماچل پردیش میں اقتدار حاصل ہوا۔ اسی طرح کھرگے کانگریس کیلئے نیک شگون ثابت ہوئے۔ اپنی آبائی ریاست میں پارٹی کو دوبارہ اقتدار دلانے کیلئے ملکارجن کھرگے نے کمر کس لی ہے اور سیاسی مبصرین کے مطابق کرناٹک بھی ملکارجن کھرگے کو مایوس نہیں کرے گا۔
مسلمانوں اور اسلام کے خلاف فلموں ، ٹی وی سیریلس اور سوشیل میڈیا کے ذریعہ نفرت انگیز مہم عروج پر ہے۔ان سرگرمیوں کا مقصد بی جے پی اور سنگھ پریوار کے ایجنڈہ کو تقویت پہنچانا ہے۔ کشمیر فائلزفلم کے ذریعہ مسلمانوں کے خلاف دنیا بھر میں مذموم پرچار کیا گیا ۔ فلم کے ذریعہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ کشمیر میں مسلمان ہندوستان کے وفادار نہیں ہیں۔ فلم پر سنسر بورڈ اور حکومت کی جانب سے کوئی کارروائی نہیں کی گئی۔ برخلاف اس کے بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں فلم کو ٹیکس سے استثنیٰ دیا گیا ۔ دوسری کوشش کے طور پر ’’دی کیرالا اسٹوری‘’ ریلیز کی گئی جس میں ہندو اور کرسچین خواتین کو تبدیلی مذہب کے بعد دہشت گرد کارروائیوں میں ملوث کرنے کا الزام ہے ۔ فلم سازوں نے ابتداء میں کیرالا میں 32,000 خواتین کے تبدیلی مذہب کا دعویٰ کیا تھا لیکن بعد میں یہ تعداد گھٹ کر تین کردی ہے۔ داعش جیسی دہشت گرد تنظیموں کے خواتین کو شامل کرنے کی کہانی پر مشتمل کیرالا اسٹوری کا سوشیل میڈیا پر کافی پرچار کیا جارہا ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عدالت نے بھی فلم کی نمائش پر روک لگانے سے انکار کردیا۔ اگر یہی کسی ہندو دیوی دیوتا کے بارے میں ہوتا تو ملک بھر میں ہنگامہ کھڑا کیا جاتا۔ تنگ نظری اور تعصب پسندی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ شاہ رخ خاں کی فلم پٹھان میں زعفرانی رنگ کے لباس کو سنگھ پریوار نے برداشت نہیں ہیں۔ فلمی گانے پر ہیروئن کے زعفرانی لباس کو ہندوتوا کی توہین قرار دیا گیا۔ بات جب مسلمانوں اور اسلام کی آتی ہے تو تمام ایک ہوجاتے ہیں۔ کئی ٹی وی سیریلس میں کھلے عام مسلمانوں کے خلاف نفرت پھیلائی جارہی ہے۔ کئی برسوں سے ایک سیریل کافی مقبول ہوا جو ایک کالونی کی کہانی ہے۔ کالونی میں ہندو ، سکھ اور عیسائی خاندان موجود ہیں لیکن مسلم خاندان کو شامل نہیں کیا گیا ۔ مسلم کردار کالونی کے باہر چائے فروخت کرنے والا ہے۔ اس سیریل کے ذریعہ یہ پیام دینے کی کوشش کی گئی کہ کالونیوں میں مسلمانوں کو شامل نہ کریں۔ حیرت ہے کہ کسی گوشہ نے اس خاموش فرقہ پرست ذہنیت کی نشاندہی اور اعتراض نہیں کیا ۔ موجودہ حالات پر کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎
گزر چکا زمانہ وہ انکساری کا
کہ اب مزاج بنالیجئے شکاری کا