نئی دہلی۔ آسام میں این آر سی لاگو کرپانا ممکن نہیں ہو رہا ہے لیکن یوپ‘ ہریانہ کے بشمول تقریبا نصف درجن بی جے پی زیراقتدار ریاستیں اپنے اپنے یہاں بھی این اار سی لاگو کرنے کی بات کرنے لگی ہیں‘ جہاں این آر سی کا عمل1951سے ہی لاگو ہے۔
اسکی ضرورت اس لئے بھی پڑی کہ1947میں تقسیم کے بعد آبادی کاایک حصہ مغربی پاکستان(موجودہ بنگلہ دیش)چلے گئے لیکن ان کی زمین جائیداد ہندوستان میں رہی‘ اس وجہہ سے ان کے آنے جانے کا سلسلہ بھی بنارہا ہے۔
این آر سی یعنی نیشنل رجسٹرار برائے شہریت ملک کے حقیقی شہریوں پر مشتمل ایک تفصیل ہے۔ یہ ایک ایسی تفصیل ہے جس میں ملک کے تمام حقیقی شہریوں کے نام اور ان کی تفصیلات اکٹھا رکھتا ہے۔
سپریم کورٹ میں 2013میں این آر سی راجسٹرار کو دوبارہ سے تازہ ترین بنانے کا حکم دیا۔آسام میں این آر سی نافد کرنے میں جو تکلیف پیش آرہی ہے اس کے مدنظر ملک بھر میں این آرسی کا نفاذ مشکل لگ رہا ہے۔ آسام میں فہرست تو اگئی‘
لیکن اسکے بعد سے ہی کئی قسم کے تنازعات اٹھ رہے ہیں۔ لسٹ کی اجرائی کے بعد آسام میں جہاں 19لاکھ لوگ این آرسی کی قطعی فہرست سے باہر ہوگئے ہیں‘انہیں غیرملکی یا غیرقانونی پناہ گزین مانا جارہا ہے۔
حالانکہ لسٹ میں جن لوگوں کا نام شامل نہیں ہوا ہے انہیں 120دنوں کا وقت دیاگیا ہے کہ وہ غیرملکی ٹربیونل سے رجوع ہوکر اپنی شہریت ثابت کریں۔