اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اقتدار کا بیجا استعمال کیاگیا ہے کیونکہ ایف ائی آر میں جو دفعات درج لگائے گئے ہیں وہ گرفتاری کا حق بجانب نہیں ٹہراتے
اس پہل کو ایسا کہاجاسکتا ہے کہ اقتدار کا بیجا استعمال کرتے ہوئے حکمران کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو روکنے کے لئے ہتھیار او رقانون کا استعمال کیاجاراہے‘
جس میں فری لانس صحافی پرشانت کانوجیا اور ہفتہ کی دوپہر دہلی میں ان کے مکان سے اترپردیش پولیس نے گرفتار کرلیاہے۔
Ishq chupta nahi chupaane se yogi ji pic.twitter.com/dPIexKheou
— Prashant Kanojia (@KanojiaPJ) June 6, 2019
کانوجیانے سوشیل میڈیا پر چیف منسٹر یوگی ادتیہ ناتھ جو وزرات داخلہ کا قلمدان بھی رکھتے ہیں کے خلاف”قابل اعتراض تبصرہ“کرنے کی وجہہ سے یہ گرفتاری انجام پائی ہے۔
کانوجیا جوانڈین انسٹیٹیوٹ آف انڈیا کے ماس کمیونکیشنس دہلی سے جرنلزم کا کورسس کیاہے اور وہ دی انڈین ایکسپریس اور دی وائیرہندی سے وابستہ ہیں‘ نے ٹوئٹر پر ایک نیوز شیئر کیاجو یوگی ادتیہ ناتھ کے ساتھ اپنے رشتہ کے متعلق ایک عورت کے دعوی پر مشتمل ہے اور وہ یوگی سے شادی کرنا چاہتی ہے۔
اس نیوز کو جمعرات کے روز کانوجیا نے اپنے مزاحیہ تبصرہ کے ساتھ شیئر کیاہے۔اندرون دو یوم پولیس حرکت میں ائی اور کانوجیا کو ویسٹ دہلی کے ونود نگر میں واقعہ ایک مکان سے حضرت گنج پولیس اسٹیشن لکھنو میں درج شکایت کی وجہہ سے گرفتار کرلیا۔
اس ارٹیکل کی وجہہ سے‘ کانوجیا نے جو نیوز شیئر کی ہے کہ وہ سچ نہیں ہے اور ان کا جو تبصرہ ہے وہ بھی افسوسناک ہے۔
اس کے علاوہ پھر ان کی گرفتاری بھی قانون کے مطابق درست نہیں ہے۔
اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اقتدار کا بیجا استعمال کیاگیا ہے کیونکہ ایف ائی آر میں جو دفعات درج لگائے گئے ہیں وہ گرفتاری کا حق بجانب نہیں ٹہراتے۔
یوپی پولیس کی جانب سے مذکورہ ایف ائی آر”سوموٹو“کے تحت درج کی گئی اور اس میں ائی پی سی کے دفعہ 500اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ کے دفعہ66کے حوالے سے
کانوجیاپر یہ الزام عائد کیاکہ انہوں نے یوگی ادتیہ ناتھ کے خلاف”ٹوئٹر سوشیل میڈیا“ پر توہین آمیز تبصرہ کیا اور”چیف منسٹر کی شبہہ کو متاثرکرنے“ کی ایک کوشش کی ہے۔
سب سے پہلے 500ائی پی سی کے دتحت مجرمانہ ہتک عزت ایک غیر سنجیدہ کاروائی ہے‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس اس پر ایف ائی آر دج کرتے ہوئے راست کار وائی نہیں کرسکتی۔
اس کے لئے کاروائی ایک مجسٹریٹ کے پاس خانگی شکایت کے ذریعہ ہی ہوسکتی ہے۔
سی آر پی سی کی سیکشن41کے مطابق بناء کسی ورانٹ کے گرفتاری صرف عدالتی اختیارات کے تحت ہی ہوسکتی ہے۔
دوسری وجہہ سیکشن 66برائے ائی ٹی ایکٹ حالانکہ سنجیدہ جرم ہے اور اس کیس میں اس کو کوئی اطلاق نہیں ہوتا۔اسکی فراہمی کا تعلق ”کمپویٹر نظام کو دھوکہ اور فریب کے ساتھ تباہ کرنا“ہے۔
جس کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔کیاکانوجیا کے ٹوئٹ سے کوئی کمپویٹر نظام کو نقصان ہوا ہے‘ یہ بھی ایک دھوکہ اور فریب ہے؟۔یہ وہ سوال ہے جس کا استفسار کیاجارہا ہے مگر حالات کا اس سے تقابل نہیں ہے۔
ایسا لگ رہا ہے کہ جان بوجھ کر اس سیکشن کو ایف ائی آر میں شامل کیاگیاہے۔ کانوجیاکی گرفتاری کے خلاف بڑھتی برہمی کے بعد یوپی پولیس نے حالات کو معمول پر لانے کے لئے ایک پریس کانفرنس جاری کیا۔
مذکورہ بیان میں یہ اضافہ کیاگیا ہے کہ مذکورہ کیس میں یہ اضافہ کیاگیا ہے کہ کانوجیا نے سوشیل میڈیا پر ”توہین آمیز تبصرہ کیا“ اور ”افواہیں پھیلائیں“۔
چنانچہ گرفتاری کو قانونی ظاہر کرنے کے لئے مذکورہ بیان میں دو قوانین او رلگائے گئے‘ سیکشن 505ائی پی سی اور انفارمیشن اینڈ ٹکنالوجی کی دفعہ 97جس کا ذکر ایف ائی آر میں نہیں ہے۔
سیکشن505کے تحت ان کے خلاف کاروائی کی جاتی ہے جو عوام میں خوف پیدا کرنے کی مقصد سے بیان دیتے ہیں‘ افواہ پھیلاتے ہیں یا پھر رپورٹ پیش کرتے ہیں۔
نفرت پھیلانے کے مقصد سے دئے گئے بیانات کے خلاف بھی اس کا استعمال کیاجاتا ہے۔یہاں پر سیکشن 67کا اطلاق اس پر ہوا ہے جو ان لائن میٹریل پر مشتمل ہے۔
کیونکہ انہوں نے وہ ان لائن نیوز کو میڈیا پر شیئر کیا ہے جو کسی ایک عورت کے میڈیا کو دئے گئے بیان پر مشتمل ہے جس کو کسی بھی زوایہ سے ”فحش“ نہیں کہاجاسکتاہے۔
مذکورہ بیان میں یوپی پولیس نے یہ بھی شامل کیاہے کہ ”سخت پوچھ تاچھ“ کے بعد کانوجیانے اقبال جرم بھی کیاہے۔پولیس نے ایسا جو کچھ بھی کیاہے وہ کسی کھیل سے کم نہیں تاکہ پولیس کے خلاف عوام کی رائے مضبوط ہونے روکنے میں اس سے مدد ملے‘ کیونکہ پولیس کی تحویل میں کسی ملزم کے اقبالیہ بیان کی کوئی صداقت نہیں ہوتی۔
سی آر پی سی کے تحت بھی جو گرفتاری کی بات کی جارہی ہے وہ غیرقانونی ہے۔ان جرائم میں کسی پر بھی سات سال سے زیادہ قید کی سزا نہیں سنائی جاسکتی ہے۔
ائی ٹی ایکٹ کی دفعہ67کے تحت زیادہ سے زیادہ سز ا پانچ سال قیدہوگی‘ او روہ بھی اسی طرح کا جرم دوبارہ انجام دئے ہی ہے۔
ارنیش کمار کے کیس بھی اس طرح کے حوالوں کا سہارا لیاگیاتھا۔ کانوجیا کا بیان یقینی طور پر چیف منسٹر کے لئے الجھن کی وجہہ ہوسکتا ہے۔ مگر قانون کے دائرے کے باہر جاکر گرفتاری حق بجاب نہیں ہوسکتی۔