شیشہ و تیشہ
شبیر علی خان اسمارٹؔ جعلی ڈاکٹروں سے معذرت کیساتھ مجھ سا ان پڑھ بھی جب بن گیا ڈاکٹر لوگ کہتے ہیں خودساختہ ڈاکٹر وہ تو پی ایچ ڈی کرکے بنا
شبیر علی خان اسمارٹؔ جعلی ڈاکٹروں سے معذرت کیساتھ مجھ سا ان پڑھ بھی جب بن گیا ڈاکٹر لوگ کہتے ہیں خودساختہ ڈاکٹر وہ تو پی ایچ ڈی کرکے بنا
ڈاکٹر عزیز فیصل مزاحیہ غزل ناصر کاظمی کی غزل کے مصرع ثانی پر گرہ سازی دم بشیراں کا بھر نہ جائے کہیں ’’تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں‘‘
مرزا یاور علی محورؔ نجات …!! ظالم نے ظلم کو ہی طریقہ سمجھ لیا فرمان دے کے اُسکو عریضہ سمجھ لیا احساس کمتری کا مرض اس قدر بڑھا اُس سے
یاور علی محورؔ بیگم …! برسرِروزگار ہے بیگم اک بڑی عہدہ دار ہے بیگم زندگی ہے فقط طفیلی سی اُس کا دارومدار ہے بیگم ………………………… محمد حامد(سلیم) مرغا…!! اک دل
سرفراز شاہدؔ مقبول ڈپلومیٹ…!! زمانے میں وہی مقبول ’’ ڈپلومیٹ ‘‘ ہوتا ہے جو منہ سے ’’ دِس ‘‘ کہے تو اس کا مطلب ’’دَیٹ‘‘ ہوتا ہے عوام الناس کو
محسن نقویؔ دشمن …!! آرائش مذاقِ جنوں اِس طرح کرو گنجائشِ رفو بھی ہو دامن کے چاک میں باھم نظر چُراکے گزرتے رہو مگر اتنا رہے خیال کہ دشمن ہے
اقبال شانہؔ مزاحیہ غزل فرض ہم اپنا نبھاکر سوگئے پاؤں بیگم کے دباکر سوگئے سورہے ہیں وہ پلنگ پر اور ہم فرش پر بستر بچھاکر سوگئے گونج اُٹھا اُن کے
انورؔ مسعود ہتک…! کل قصائی سے کہا اِک مفلسِ بیمار نے آدھ پاؤ گوشت دیجئے مجھ کو یخنی کے لئے گْھور کر دیکھا اُسے قصاب نے کچھ اس طرح جیسے
پاپولر میرٹھی پٹ گئے ! نیر ، جمال ، اشرف و آعظم بھی پٹ گئے کوئے بتاں میں شیخ مکرم بھی پٹ گئے دیوانے پن میں قبلۂ عالم بھی پٹ
مرزا یاور علی محورؔ شامت …!! پوچھا بیگم سے تم کو سوتن کی کیا ضرورت نظر نہیں آتی بولی آتی ضرور آتی ہے تم کو شامت نظر نہیں آتی ………………………
ماجدؔ دیوبندی اُردو زبان …! نفرتوں کی فضاؤں میں رہ کر پیار کا آسمان رکھتے ہیں جس کے نعروں سے پائی آزادی ہم وہ اُردو زبان رکھتے ہیں ……………………… مرزا
مرزا یاور علی محورؔ مہمان کی طرح …!! سب جان کے بھی ہوگیا انجان کی طرح اپنے وطن میں رہتا ہے مہمان کی طرح موقع جو مل گیا ذرا دنیا
’’آثار…‘‘ مُلک لُٹ جائے گا آثار نظر آتے ہیں سارے مسند نشین مکار نظر آتے ہیں ہم نے اس ملک کی دھرتی سے محبت کی ہے پھر بھی اندھوں کو
فرید سحرؔ سسرے کو ٹوپی…! سسرال سے اب آئے ہیں دعوت اُرا کے ہم میکے سے اُن کو لائے ہیں تحفے بھی پاکے ہم حالانکہ باپ ہم بنے بیٹے کے
شاہدؔ عدیلی غزل (مزاحیہ) بے حیائی کا ہر اک سمت نظارا ہے میاں نہ تو برقعہ ہے بدن پر نہ دوپٹہ ہے میاں بالیاں کان میں ہیں چہرا بھی چکنا
شادابؔ بے دھڑک مدراسی قطعہ میں لومڑی نہیں ہوں بیابانِ شعر میں شیر ببر ہوں دشت و گلستانِ شعر میں شادابؔ ہوں غزل میں ہزل میں ہوں بیدھڑکؔ ٹو اِن
شاداب بے دھڑک مدراسی ہنسنے کی مشق! دامانِ غم کو خون سے دھونا پڑا مجھے اشکوں کے موتیوں کو پرونا پڑا مجھے میری ہنسی میں سب یونہی شامل نہیں ہوئے
قرض …!! سیٹھ بولا قرض اب فوراً ادا کرنا مجھے خواہ مخواہ تو اس طرح سے کیوں پھراتا ہے مجھے میں نے اس سے یہ کہا بھائی کہ یہ تو
احمدؔ قاسمی دیکھ لو …!! دوڑ پانی میں لگاکر دیکھ لو ریت پر کشتی چلاکر دیکھ لو تجربہ بڑھتا ہے احمدؔ قاسمی ٹھوکریں در در کی کھاکر دیکھ لو ………………………
شیخ احمد ضیاءؔ غزل کرکے احسان یوں جتانا کیا جو کمایا اُسے گنوانا کیا تم کو آنا نہ تھا نہیں آتے ہر دفعہ اک نیا بہانہ کیا زندگی کی ہزار