شیشہ و تیشہ

   

عبدالباری چکر ؔ نظام آبادی
جدید فیشن
شارٹ لینت پوشاک میں بچوں کو اکڑتے دیکھا
ان کی پتلون کو کمر سے سرکتے دیکھا
بے حیائی کا یہ فیشن عجب ہے چکرؔ
چیز چھپنے کی جو ہے اِس کو نکلتے دیکھا
پٹرول
مہنگا ہوا ہے جب سے اے میرے یار پٹرول
آنکھوں میں پھر رہا ہے لیل و نہار پٹرول
موٹرنشین سارے مانگیں ہیں یہ دُعائیں
تھوڑا ہمیں بھی دے دے پروردگار پٹرول
………………………
استاد رامپوری
یہ سال دوسرا ہے
(جنوری سے ڈسمبر تک کا حساب کتاب )
جب تم سے اتفاقاً میری نظر ملی تھی
کچھ یاد آرہا ہے شاید وہ جنوری تھی
مجھ سے ملیں دوبارہ یوں ماہ فروری میں
جیسے کہ ہم سفر ہو تم راہِ زندگی میں
کتنا حسیں زمانہ آیا تھا مارچ لے کر
راہِ وفا پہ تھیں تم وعدوں کی ٹارچ لے کر
باندھا جو عہدِ اُلفت اپریل چل رہا تھا
دنیا بدل رہی تھی موسم بدل رہا تھا
لیکن مئی میں جبکہ دشمن ہوا زمانہ
ہر شخص کی زباں پر بس تھا یہی فسانہ
دنیا کے ڈر سے تم نے بدلی تھیں جب نگاہیں
تھا جون کا مہینہ لب پر تھیں گرم آہیں
جولائی میں جو تم نے کی بات چیت کچھ کم
تھے آسماں پہ بادل اور میری آنکھ پُرنم
ماہِ اگست میں جب برسات ہورہی تھی
بس آنسوؤں کی بارش دن رات ہورہی تھی
توڑا جو عہدِ اُلفت وہ ماہ تھا ستمبر
بھیجا تھا تم نے مجھ کو ترکِ طلب کا لیٹر
تم غیر ہوچکی تھیں اکتوبر آگیا تھا
دنیا بدل چکی تھی موسم بدل چکا تھا
جب آگیا نومبر ایسی بھی رات آئی
مجھ سے تمھیں چھڑانے سج کر بارات آئی
بے کیف تھا ڈسمبر جذبات مرچکے تھے
ان سرد مہریوں سے ارماں ٹھٹھرچکے تھے
پھر جنوری ہے لیکن اب حال دوسرا ہے
وہ سال دوسرا تھا یہ سال دوسرا ہے
………………………
مریض اور ڈاکٹر …!!
٭ دانت کے ڈاکٹر کے پاس ایک مریض کا سامنے کا دانت نکالنا تھا۔ ڈاکٹر نے غلطی سے آخری کا دانت نکال دیا۔
مریض نے چلاکر کہا :’’ارے مجھے صرف سامنے کا دانت نکالنا ہے ۔ آپ نے کیا کردیا…‘‘۔
ڈاکٹر نے کہا : ’’گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ میں سیریل سے آرہا ہوں …!!‘‘
…………………………
پھول کا ہار…!!
٭ آپریشن تھیٹر میں مریض کو دیوار پر ایک پھول کا ہار نظر آیا ۔ مریض نے دریافت کیا کہ : ’’یہ پھول کا ہار کس کے لئے …؟‘‘
ڈاکٹر نے کہا ’’گھبرانے کی ضرورت نہیں۔ اگر آپریشن کامیاب رہا تو یہ پھول کا ہار مجھے ڈالا جائے گا اور اگر ناکام رہا تو آپ پر ‘‘۔
سید اعجاز احمد۔ ورنگل
…………………………
’’پسند ‘‘
٭ سیالکوٹ کے مشاعرے میں اسٹیج پر شاعروں کی خاصی بڑی تعداد موجود تھی ۔ مشاعرہ ختم ہوا تو لوگ اسٹیج سے اترکر قریب ہی رکھے جوتوں میں سے اپنے اپنے جوتے نکال کر پہننے لگے ، جو آپس میں خاصے گڈمڈ ہوچکے تھے ۔ طفیلؔ ہوشیارپوری کو اپنے جوتے ڈھونڈنے میں خاصی دشواری درپیش تھی ۔ وہ بار بار بہت سے جوتوں کو اُلٹ پلٹ کر دیکھ رہے تھے کہ پاس کھڑے ایک نوجوان شاعر کی رگِ ظرافت پھڑکی ۔ اس نے پوچھا : ’’طفیلؔ صاحب ! آپ جوتا تلاش کررہے ہیں یا پسند کررہے ہیں ؟‘‘۔
حبیب حذیفہ العیدروس۔ ممتاز باغ
…………………………
ایک گھونٹ !
٭ ایک ہندوستانی جب جاپان گیا تو اس کے جاپانی دوست نے اسے پہلے وہاں کی شراب پینے کو دی ۔ ہندوستان نے پہلا گھونٹ ہی پیا تھا کہ دیواریں لڑکھڑانے لگیں ۔ فرش ہلنے لگا ، چھت گھومتی ہوئی محسوس ہوئی ، فرنیچر اِدھر اُدھر گرنے بکھرنے لگا ۔
ہندوستانی گھبراکر بولا : ’’اُف یہ تو بہت تیز شراب ہے ، پہلے گھونٹ نے یہ حال کردیا ‘‘۔
جاپانی دوست نے اِسے سمجھاتے ہوئے کہا : ’’فکر مت کرو دوست ، اس گڑبڑ کی وجہ شراب نہیں زلزلہ ہے ‘‘۔
محمد منیرالدین الیاس ۔ مہدی پٹنم
…………………………