اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں

   

بہار کے بعد بنگال… بی جے پی کے نشانہ پر
کورونا کی تازہ لہر … حکومت کو عوام کی فکر نہیں

رشیدالدین
یوں تو کوئی بھی نشہ انسان کیلئے زہر ہوتا ہے لیکن اقتدار کا نشہ اور بھی زیادہ خطرناک ہوتا ہے جوکہ انسانیت اور سماج کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے۔ کوئی پارٹی ہو کہ حکومت یا پھر قائدین جب ان میں سے کوئی بھی اقتدار اور کرسی کے نشہ میں مبتلا ہوجائے تو اس کا زوال قریب ہوتا ہے۔ اقتدار کے نشہ میں دھت افراد کے پاس اصولوں ، اخلاقیات اور اقدار کا کوئی پاس و لحاظ نہیں ہوتا اور بس اقتدار کا حصول ہی واحد ایجنڈہ ہوتا ہے۔ بھلے ہی وہ غلط طریقہ سے حاصل کیوں نہ ہو۔ مدھیہ پردیش میں کانگریس حکومت کے زوال اور بہار میں دوبارہ اقتدار کے حصول نے بی جے پی قائدین کو بے قابو کردیا ہے۔ نظریں زمین کے بجائے آسمانوں پر ہیں۔ ’’آج کل پاؤں زمیں پر نہیں پڑتے میرے‘‘ فلمی نغمہ کے مصداق نریندر مودی اور امیت شاہ خود کو ناقابل تسخیر سمجھنے لگے ہیں۔ بہار میں اپوزیشن بالخصوص کانگریس کی کمزوری کا فائدہ اٹھاکر اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد مغربی بنگال بی جے پی کے نشانہ پر ہے۔ 2021 یعنی آئندہ سال اسمبلی انتخابات تک گراؤنڈ تیار کرنے کیلئے مودی نے اپنے وزیر باتدبیر اور بی جے پی کے چانکیہ امیت شاہ کو بنگال بھیجا ہے۔ امیت شاہ اور بی جے پی کے قومی صدر جے پی نڈا ہر ماہ مغربی بنگال کا دورہ کرتے ہوئے بی جے پی کے حق میں میدان ہموار کریں گے ۔ فرقہ وارانہ ایجنڈہ کو ہوا دینے کے ماہر امیت شاہ ابھی سے بنگالیوں کے ذہنوں کو آلودہ کرتے ہوئے ممتا بنرجی کو اقتدار سے بے دخل کرنے کا خواب دیکھ رہے ہیں۔

مغربی بنگال کوئی مدھیہ پردیش یا بہار نہیں جہاں ہندوتوا ایجنڈہ کام کر جائے۔ بزرگوں سے ہم نے سنا ہے کہ ہر پٹاری خالی نہیں ہوتی اور کسی ایک میں اژدھا ضرور نکلتا ہے۔ ٹھیک اسی طرح بنگال کی پٹاری سے نکلنے والا اژدھا فرقہ پرستی کو نگل لے گا۔ قومی سطح پر کانگریس کے کمزور موقف کے بعد بی جے پی نے علاقائی سطح پر موجود سیکولر طاقتوں کے خلاف محاذ کھول دیا ہے تاکہ مودی کی دوسری میعاد میں ہندوستان کو ہندو راشٹر میں تبدیل کردیا جائے ۔ بی جے پی کے مقصد کی تکمیل میں کیرالا اور مغربی بنگال اہم رکاوٹ اور مزاحمتی مراکز کے طورپر ہیں۔ اگر ان دونوں ریاستوں میں کسی طرح بھگوا پرچم لہرا دیا جائے تو علاقائی سطح پر مخالفت ختم ہوجائے گی ، لہذا بی جے پی نے آئندہ سال ہونے والے بنگال الیکشن پر توجہ مرکوز کردی ہے ۔ بہار میں بی جے پی ۔جے ڈی یو اتحاد کی کامیابی کوئی کارنامہ نہیں کیونکہ وہاں اپوزیشن کا حال ایک منتشر گھر کی طرح تھا ۔ بنگال میں ممتا بنرجی سے ٹکر لینا بی جے پی کی بس کی بات نہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں ووٹ فیصد میں اضافہ کو بی جے پی اقتدار میں تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ لوک سبھا اور اسمبلی الیکشن میں کافی فرق ہوتا ہے۔ دونوں کے انتخابی موضوعات اور عوام کی ترجیحات مختلف ہوتی ہیں۔ بنگال بنیادی طور پر سیکولر نظریات کی حامل ریاست ہے جو کبھی بائیں بازو کا ناقابل تسخیر قلعہ رہا۔

دو دہائیوں سے زائد عرصہ تک جیوتی باسو ناقابل چیلنج چیف منسٹر کی حیثیت سے برقرار رہے۔ جس سرزمین کی مٹی میں سیکولرازم اور سوشلزم کی آبیاری کی گئی ہو، وہاں فرقہ پرستی کیلئے کوئی گنجائش نہیں ہوسکتی۔ بی جے پی نے دراصل بنگال کے رائے دہندوں اور ممتا بنرجی کے بارے میں غلط اندازہ قائم کرلیا ہے۔ خاتون ہونے کے باوجود ارادہ کی پکی ترنمول قائد نے کمیونسٹ اقتدار کا خاتمہ کیا۔ بائیں بازو کی نظریاتی حکمرانی کو شکست دینا کسی کے بس کی بات نہیں تھی لیکن ممتا بنرجی نے اسے ممکن کر دکھایا۔ کانگریس سے ممتا بنرجی کی علحدگی کے بعد سے بنگال میں کانگریس کے قدم آج تک نہیں جم سکے ۔ پنچایت سے لے کر کولکتہ تک ترنمول کانگریس کا مضبوط نیٹ ورک ہے ۔ بی جے پی کے شاہ کے لئے بنگال کو فتح کرنا آسان نہیں ہے۔ امیت شاہ مہینہ میں ایک بار تو کیا اگر مستقل سکونت بنگال میں اختیار کرلیں تب بھی ممتا بنرجی کو شکست دینا آسان نہیں ہوگا۔ فرقہ وارانہ ایجنڈہ کے ساتھ پارٹی کارکنوں کی ہلاکت کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جارہی ہے۔ پارٹی کارکن کی ہلاکت کے خلاف بند منایا گیا۔ فرقہ پرستی کا زہر عوام میں گھولنے کے لئے بنگال میں این آر سی پر عمل آوری اور بنگلہ دیش سے آنے والوں کو ملک بدر کرنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ بی جے پی کے پاس ترقی کا ایجنڈہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی ایسا کارنامہ جسے عوام کے درمیان پیش کرسکیں۔ ملک میں یکے بعد دیگرے ہندوتوا ایجنڈہ میں شامل امور کی تکمیل کی گئی ۔ کشمیر سے دفعہ 370 کی برخواستگی ، طلاق ثلاثہ پر پابندی ، رام مندر اور شہریت ترمیمی قانون (CAA) پر کامیابی کے بعد اگلا نشانہ یکساں سیول کوڈ ہے جوکہ ہندو راشٹر کے اعلان کی سمت پہلا قدم ہوگا ۔ ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کے جذبات بھڑکانے کیلئے پھر ایک مرتبہ لو جہاد کا مسئلہ چھیڑ دیا گیا ۔ یو پی ، ہریانہ اور دیگر بی جے پی زیر اقتدار ریاستوں میں لو جہاد کے خلاف قانون سازی کی تیاری ہے ۔ اگر کوئی مسلمان لو میریج وہ بھی لڑکی کی مرضی سے کرے تو اسے جہاد کا نام دے دیا گیا ۔ اگر کوئی دوسرے مذہب والا یہی کام کرے تو کیا نام دیں گے ؟ نریندر مودی نے مغربی بنگال میں پارٹی کارکنوں کی ہلاکت پر کہا کہ ’’موت کے کھیل سے اقتدار نہیں ملتا ‘‘۔ مودی جی اس طرح کی نصیحت ممتا بنرجی سے پہلے یوگی ادتیہ ناتھ کو کریں جہاں لو جہاد ، گاؤ رکھشا اور دیگر عنوانات سے مسلمانوں کی ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے ۔

ملک میں سیکولر طاقتوں کی کمزوری اور بکھراؤ نے بی جے پی اور سنگھ پریوار کو پیر پھیلانے کا موقع فراہم کیا ہے ۔ جارحانہ فرقہ پرست طاقتیں بے لگام ہوچکی ہیں۔ بائیں بازو کی جماعتوں کا وجود خطرہ میں پڑچکا ہے جو کبھی ملک میں بادشاہ گر کے موقف میں تھے اور حکومتوں کی تشکیل میں ہرکشن سنگھ سرجیت ، جیوتی باسو اور اے بی بردھن جیسے قائدین کا اہم رول ہوا کرتا تھا ۔ دوسری طرف کانگریس پارٹی قومی متبادل کے طورپر ابھرنے میں ناکام دکھائی دے رہی ہے۔ پارٹی کی موجودہ قیادت اور اس کے انداز کارکردگی کے خلاف آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ 2014 ء میں اقتدار سے محرومی کے بعد کانگریس ریاستوں میں کمزور ہونے لگی جس کے نتیجہ میں بی جے پی کو راجیہ سبھا میں اکثریت حاصل ہوگئی اور اب کوئی بھی قانون سازی بآسانی کی جاسکتی ہے۔ بہار میں پارٹی کے ناقص مظاہرہ کے بعد ناراض عناصر کی کی قیادت پر نکتہ چینی میں اصافہ ہوگیا۔ بہار میں کانگریس کا مظاہرہ گزشتہ انتخابات سے ناقص رہا جس کا نقصان راست طور پر آر جے ڈی کو ہوا جو اقتدار کی دہلیز تک پہنچ کر بھی پیچھے رہ گئی ۔ سیاسی گرما گرم ماحول کے درمیان ملک میں کورونا کا قہر پھر ایک بار شدت اختیار کرچکا ہے۔ دہلی کے بشمول مختلف ریاستوں میں کورونا کیسس میں اضافہ ہوگیا ۔ دہلی کی حکومت نے صورتحال کو بے قابو قرار دیتے ہوئے مرکز سے لاک ڈاؤن کی اجازت طلب کی ہے۔ کجریوال حکومت نے ماسک کے عدم استعمال کیلئے جرمانہ کی رقم دوگنی کردی ہے ۔ گجرات کے احمد آباد میں رات کا کرفیو نافذ کیا گیا ہے ۔

ملک میں کورونا کی دوسری اور تیسری لہر کا اندازہ درست ثابت ہونے لگا ہے ۔ حیرت تو اس بات پر ہے کہ مرکز کیسس کی اصلیت کو دبانے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ٹسٹ کم کرتے ہوئے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ کیسس کی تعداد کم ہے جبکہ حقیقت اس کے برخلاف ہے ۔ مہاراشٹرا ، مغربی بنگال ، ٹاملناڈو اور پنجاب میں بھی کورونا کیسس کی دوسری لہر دکھائی دے رہی ہے۔ عالمی ادارہ صحت اور ملک کے طبی ماہرین نے حکومتوں کو چوکسی کا مشورہ دیا ہے۔ مرکزی حکومت کو معاشی صورتحال بہتر بنانے کی اس قدر فکر ہے کہ وہ عوامی زندگی کو بچانے میں دلچسپی نہیں رکھتی۔ حکومت کی دستوری ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کا تحفظ کرے۔ دوبارہ قومی سطح پر لاک ڈاؤن کی ضرورت محسوس کی جارہی ہے لیکن اگر حکومت کو عوامی زندگی سے دلچسپی ہو تو وہ متبادل طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے کورونا پر قابو پاسکتی ہے۔ کورونا کے قہر کے باوجود ملک بھر میں احتیاطی تدابیر کے نفاذ میں ریاستی حکومتیں ناکام ثابت ہوئی ہیں۔ تہواروں کے موقع پر ہجوم ، بہار کی انتخابی مہم اور موسم سرما یہ تینوں ماہرین کے مطابق کورونا میں اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں۔ راحت اندوری نے کچھ یوں تبصرہ کیا ہے ؎
لوگ ہر موڑ پہ رک رک کے سنبھلتے کیوں ہیں
اتنا ڈرتے ہیں تو پھر گھر سے نکلتے کیوں ہیں