این آر سی پر شیخ حسینہ کی خاموشی

   

اُگلتا آیا ہے سورج جو سرپہ آگ مرے
ضروری یہ ہے کہ اب سائبان لے کے چلوں
این آر سی پر شیخ حسینہ کی خاموشی
ہندوستان نے اپنے پڑوسی ملکوں کے ساتھ تعلقات کو مستحکم بنائے رکھنے کی ہر ممکنہ کوشش کی ہے۔ جنوبی ایشیاء میں ہندوستان کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ برصغیر میں پاکستان کے ساتھ کشیدہ تعلقات کے درمیان اگر بنگلہ دیش سے پرانی دوستی کا نقارہ بجتا ہے تو یہ اس لئے ہے کیوںکہ ہندوستان کو یہ فخر ہے کہ اس نے بنگلہ دیش کی آزادی میں اہم رول ادا کیا۔ بنگلہ دیش کے سربراہوں نے ہندوستان کے ساتھ مفاہمانہ موقف اختیار کیا ، اس لئے دوستی کا پہلو خوشگوار طور پر جاری ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کے معاملہ میں حکومتوں کا رویہ مختلف رہا ہے۔ بہرحال بنگلہ دیش کی وزیر اعظم شیخ حسینہ کے حالیہ دورہ ہند کے موقع پر دونوں جانب3 باہمی پراجکٹوں کا افتتاح کیا تھا اور دیگر 7 معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں۔ اس پراجکٹ کے ذریعہ بنگلہ دیش سے پکوان گیاس درآمد کی جائے گی۔ دونوں ملکوں کے درمیان اشیاء کے تبادلوں پر بھی معاہدے ہوئے ہیں۔ شیخ حسینہ نے اپنے دورے کو کامیاب بنانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھی، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے ملک بنگلہ دیش کے ساتھ ہندوستان کی قربت سے استفادہ کیا۔ حالیہ برسوں میں بنگلہ دیش بھی جنوب ایشیائی خطہ میں ایک اُبھرتی طاقت بن گیا ہے۔ اس کی سالانہ آمدنی میں بھی اضافہ ہورہا ہے اور بنگلہ دیشیوں کے معیارِ زندگی میں پہلے سے زیادہ بہتری دیکھی جارہی ہے۔ عالمی سطح پر جہاں بڑے طاقتور ملکوں کا آپس میں تجارتی تنازعہ ہوتا ہے وہیں بنگلہ دیش جیسے غریب ملک کی میانہ روی نے اس ملک کو تجارتی شعبہ میں دیگر ممالک کے ساتھ بہتر روابط کو فروغ ملا ہے۔ چین کے ساتھ امریکہ کی تجارتی لڑائی کا فائدہ بنگلہ دیش کو بھی ہورہا ہے، اس لئے بنگلہ دیش سے برآمدات میں گذشتہ سال6.7 فیصد کے مقابل اس سال 10.1 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ بنگلہ دیش کو ترقی کی راہ پر لے جانے کے لئے شیخ حسینہ نے اپنے عوام سے کئے گئے وعدوں کو پورا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہندوستان اور بنگلہ دیش کے دونوں سربراہوں کی ملاقات بھی دونوں ملکوں میں تازہ انتخابات اور حکومتوں کے اقتدار پر آنے کے بعد ہوئی ہے تو تعلقات کو مزید مستحکم کرنے میں کوئی مانع حائل نہیں ہوگا۔ ہندوستان نے اپنی خارجہ پالیسی کو کو وسعت دیتے ہوئے اس میں بنگلہ دیش کو بھی زیادہ جگہ دی ہے تو یہ بنگلہ دیش کی حالیہ ترقی کا ہی نتیجہ ہے۔ بنگلہ دیش کے تعلق سے کل تک ہندوستان کی سوچ مختلف ہوسکتی ہے مگر اب یہ سوچ تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ وزیر اعظم بنگلہ دیش نے ہند ۔ بنگلہ دیش تعلقات کو ایک نئی سطح تک لے جانے کی کوشش کی ہے۔ بنگلہ دیش بھی اب خوشحالی کی طرف اُبھررہا ہے اس لئے شیخ حسینہ نے مودی حکومت کی این آر سی پالیسی پر خاص ردِعمل ظاہر نہیں کیا۔ حالانکہ این آر سی کے مسئلہ سے سب سے زیادہ بنگالی بولنے والے باشندے متاثر ہورہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی نے این آر سی کے تعلق سے شیخ حسینہ کو جو تیقن دیا ہے آیا وہ پورا کریں گے۔ این آر سی کے مسئلہ نے داخلی طور پر ہندوستان اور بنگلہ دیش کے اندر تلخیاں پیدا کردی ہیں لیکن اس تلخی کو باہر لانے سے گریز کیا گیا ہے۔ خاصکر شیخ حسینہ نے این آر سی کے بارے میں محتاط رہ کر ہی لب کشائی کی ہے۔ انہیں اپنے شہریوں کے ساتھ ہونے والے تنازعات یا این آر سی کے ذریعہ نشانہ بننے والے بنگالی بولنے والوں سے ہمدردی رکھنے کی ضرورت تھی لیکن انہوں نے اس جانب خاص توجہ نہیں دی۔ 2008 سے دوبارہ اقتدار پر آنے والی شیخ حسینہ نے ایک بہترین حکمت عملی کے ساتھ اپنے ملک کی باگ ڈور سنبھالی ہے اور ان کی خارجہ پالیسی سے بھی بنگلہ دیش کو دیگر ممالک کے ساتھ روابط کو مستحکم کرنے کا موقع ملا ہے۔بنگلہ دیش نے بھی مسائل سے نمٹتے ہوئے اپنی ترقی کی راہوں کو کشادہ کیا ہے۔ لیکن آنے والے دنوں میں اسے ہندوستان کے این آر سی مسئلہ سے پریشانی لاحق ہوگی تو اس کے لئے وزیر اعظم شیخ حسینہ کو غور کرنے کی ضرورت پڑے گی۔ اس وقت تو انہوں نے این آر سی پر وزیر اعظم مودی کے تیقن کے بعد خاموشی اختیار کرلی، لیکن آگے چل کر یہ مسئلہ بنگلہ دیش اور بنگالی بولنے والے عوام کیلئے نازک بن جائے تو پھر صورتحال مختلف ہوگی۔