صوفی شاہ محمد سلطان قادری شطاری
یاد رکھو کہ توبہ راہروان راہِ سلوک کا پہلا مقام ہے۔ جیسے کہ (مبتدی) طالبانِ حق کا پہلا درجہ طہارت ہے۔ اللہ تعالی نے فرمایا ہے کہ : ’’اے ایمان والو! اللہ کی بارگاہ میں سچی توبہ کرو‘‘ (سورۃ التحریم ) ایک اور جگہ فرمایا: ’’تم سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو‘‘(سورہ نور ) اور حضور ﷺنے فرمایا کہ’’اللہ تعالی کو اس شخص سے بڑھ کر کوئی چیز محبوب نہیں ہے جس نے جوانی کے زمانے میں توبہ کر لی‘‘ نیزآنحضور ﷺنے فرمایا’’گناہ سے توبہ کرنے والا بے گناہ ہو جاتا ہے ‘‘۔ پھر فرمایا’’جسے اللہ تعالی دوست رکھے اس کو کوئی گناہ ضر ر نہیں پہنچا سکتا‘‘۔ اور پھر یہ آیت دہرائی ’’تحقیق اللہ تعالی توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے‘‘(سورۃ البقرہ ) صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی عنہم نے پوچھا کہ ’’یارسول اللہ توبہ کی نشانی کیا ہے؟ ‘‘ فرمایا’’ندامت‘‘ اور وہ جو حضور نے فرمایا کہ گناہ سے دوستانِ حق کو کوئی ضرر نہیں پہنچتا تو اس سے مراد یہ ہے کہ بندۂ حق ارتکاب گناہ سے کافر نہیں ہو جاتا،اور نہ ہی اس سے اس کے ایمان میں کوئی خرابی و آفت پیدا ہو سکتی ہے۔ گویا اُس کا سرما یۂ طاعت و بندگی (اور اس سے بڑھ کر دولتِ توبہ) کو گناہ سے نقصان نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ وہ گناہ(جس سے توبہ کر لی جائے) عاقبتِ کار باعثِ نجات اور بخشش بن جاتا ہے۔ تو پھر حقیقت میں اسے کافرکیوں کر کہاجاسکتا ہے؟ وہ تو مستوجب رحمت ہو گیا (بشرطیکہ وہ توبہ صحیح معنوں میں توبہ ہو) لہٰذا خوب جان لو کہ لُغت میں توبہ ’’رجوع کرنا‘‘ کے معنی میں آتا ہے۔جیسا کہ (اہل عرب) کہا کرتے ہیں ’’تَابَ‘‘ یعنی رجوع کیا اس نے۔ پس حقیقت توبہ یہ ہے کہ بندہ اُن افعال کو چھوڑ کر جن سے اللہ تعالی نے منع فرمایا کیا ہے،ان افعال کو اپنا لے جو اچھے ہیں اور جن کا اس نے حکم دیا ہے۔ یعنی محض اللہ کی خاطر بدی کو ترک کرکے نیکی اختیار کرلینا توبہ ہے۔
حضور ﷺ نے فرمایا کہ’’ندامت ہی تو بہ ہے‘‘ اور یہی لفظ ندامت ہی وہ کلیدی لفظ ہے ‘ جس میں توبہ کے تمام شرائط مضمر ہیں۔ اس لئے کہ توبہ کی شرط اوّلین ندامت اورافسوس ہے اس مخالفت پر جو احکامِ خداوندی کی بجاآوری میں سرزد ہوئی ہو۔دوسری شرط فوری طور پر ترک لغزش ہے۔ اور تیسری شرط یہ ہے کہ جس گناہ سے توبہ کی ہے،پھر اس کی طرف مائل نہ ہونے کا پختہ ارادہ کر لیا جائے۔اوریہ تینوں شرائط ندامت سے متعلق ہیں کیونکہ جب دل میں ندامت پیدا ہو جائے تو موخرالذکر دونوں شرطیں خود بخود پوری ہو جاتی ہیں۔
جس طرح توبہ کی تین شرطیں ہیں اسی طرح ندامت کے تین سبب ہوتے ہیں۔ پہلا سبب یہ ہوتا ہے کہ جب خدا کے قہر و عذاب کا خوف دل پر غالب آجاتا ہے اور بُرے افعال سے پیدا شدہ اندیشے دل کو خائف و مغموم اور رنجیدہ بنا دیتے ہیں تو انسان ندامت محسوس کرنے لگتا ہے۔دوسرا سبب یہ ہوا کرتا ہے یا ہوسکتا ہے کہ نعمت و انعام کی خواہش دل و جان میں سما جاتی ہے۔لیکن صاحب خواہش کو معلوم ہو جائے کہ یہ خواہش تو بُرے افعال اور نافرمانی کی حالت میں پوری نہیں ہوسکتی تو اس صورت میں ندامت کا احساس ہونے لگتا ہے۔ اور تیسرا سبب یہ ہوتا ہے کہ احکام خداوندی کی مخالفت میں شرم خود ہی مخالف کی دامن گیر ہو جاتی ہے کہ قیامت کے دن اللہ اور تمام مخلوق کے سامنے میری کیسی رُسوائی ہوگی؟ اور اسی شرمساری کا دوسرا نام ندامت ہے۔ ان اسباب کی بنا پر نادم ہونے والوں میں پہلا تو تائب کہلاتا ہے جبکہ دوسرے کو مُنیب اور تیسرے کوآداب کہتے ہیں۔ اور دیگر گناہوں کا ارتکاب بدستور جاری رکھے تو بھی اللہ تعالی اس ایک گناہ سے توبہ کا ثواب اسے عطا فرما دیتا ہے۔بلکہ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اس ایک گناہ سے اس کے تائب ہوجانے سے (مہربان ہوکر) اُسے دوسرے گناہوں سے باز رہنے کی توفیق عطا فرما دے۔
معتزلہ (بالعموم اور ان میں) کا گروہ بشمیہ (بالخصوص) اس بات پر مُصر ہیں کہ توبہ اس وقت تک توبہ کہلا ہی نہیں جاسکتی جب تک کہ تمام گناہوں سے کُلّی طور پر (بیک وقت) توبہ نہ کرلی جائے۔ اور (انسان خطاو عصیان کا پتلا ہے، اس کے لئے) یہ قول محال ہے ، اس لیئے کہ جو گناہ بھی بندہ سے سرزد ہو گیا اُس کی سزا کیااُسے نہیں دی جاتی ؟ تو پھر( اللہ کے ہاں تو انصاف ہوتا ہے لہٰذا) جب اُن میں سے کسی کو وہ ترک کردے گا تو (کیا اُس کی جزاء اُسے نہ ملے گی ؟ ضرور ملے گی اور) اسے اس کے عذاب سے محفوظ کردیا جاتاہے۔ کیونکہ وہ تائب ہوچکا ہوتا ہے۔