ھدیل عود
فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان بالآخر جنگ بندی ہوگئی اور یہ جنگ بندی مسلسل 15 ماہ تک مظلوم و نہتے فلسطینیوں کے قتل عام و نسل کشی کے بعد طئے پائی۔ اگرچہ فلسطینیوں کو زبردست جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا لیکن ایک بات ضرور ہوئی کہ امن پسندوں نے راحت کی سانس لی جن میں فلسطینی باشندے سرفہرست ہیں۔ جنگ بندی کے نتیجہ میں بے گھر ہوئے لاکھوں فلسطینی اپنے گھروں کو واپس ہو رہے ہیں۔ اب فلسطینیوں کو اس بات کا خوف اور خدشہ لاحق نہیں ہے کہ کہیں سے بم آئے گا اور وہ اس بم کی زد میں آئیں گے۔ واضح رہے کہ ان 15 ماہ کے دوران 60 ہزار سے زائد فلسطینیوں نے جام شہادت نوش کیا اور سوا لاکھ سے زائد فلسطینی زخمی ہوئے جن میں کی اکثریت مستقبل طور پر معذور ہوگئی۔ ایک طرف فلسطینی 15 ماہ کی قتل و غارت گری بمباری شلباری (فصائی و زمینی حملوں) میں جان و مالی نقصانات سے دوچار ہونے اور بے گھر ہونے کے بعد دوبارہ اپنے گھروں کو واپس ہو رہے ہیں تو دوسری طرف عالمی سطح پر یہ بحث کی جارہی ہیکہ اسرائیل ۔ فلسطین جنگ میں کس کی فتح ہوئی ہے؟ کس نے کامیابی حاصل کی؟ کیا اسرائیل کامیاب رہا، آیا حماس وہ تنظیم ہے جو اسرائیل کے خلاف کامیابی کا اعلان کرسکتی ہے ؟ یا پھر ارض مقدس فلسطین اور مسجد اقصی کے لئے بڑی بہادری کے ساتھ اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے بہادر فلسطینی فاتح ہیں؟ میں ایک نرس ہوں کوئی پنڈت نہیں ایسے میں مذکورہ سوالات کے جوابات میرے پاس نہیں لیکن عزیز قارئین! مجھے یہ کہنے کی اجازت دیجئے کہ دنیا کو ہماری بقاء سے ہمارے وجود کے برقرار رہنے سے کسی دھوکہ میں نہیں آنا چاہئے۔ اسرائیل کی لاکھ کوششوں، زمینی و فضائی حملوں کے باوجود غزہ میں زندہ رہنا ہیروازم کے مترادف نہیں ہے؟ موت کی زد میں آنے سے بچ جانا کوئی کامیابی یا فتح نہیں ہے ہم بڑی مشکل سے اپنی جان بچا سکے اور وہ بھی اپنے رب کے رحم و کرم سے جبکہ ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کی زندگیاں بچ نہیں پائیں۔ وہی ہمارے رب کی مرضی تھی جس پر ہم سب راضی ہیں اگر دیکھا جائے تو یہ جنگ نسل کشی قتل عام اور نسلی تطہیر کی جنگ تھی۔ اس نے وقت کو ایک دائرہ میں قید کرلیا تھا جہاں آغاز تھا نہ انجام۔ کوئی ایسی منزل نہیں تھی جس کی جانب ہم آگے بڑھ سکیں۔ ہم صرف ایک دائرہ میں آگے بڑھتے جارہے تھے اور ہر روز خود کو اسی دائرے میں آگے بڑھاتے اور پھر وہیں پہنچ جاتے جہاں سے ہم نے آغاز کیا تھا، حالات اس قدر سنگین بلکہ انتہائی ابتر ہوچکے تھے کہ ہر دن ہر خاندان کو پینے کے پانی کی تلاش میں باہر جانا پڑتا تھا۔ آپ سب جانتے ہیں کہ دنیا کے کسی بھی حصہ میں روٹی کا حصول انسانوں کا بنیادی حق ہے لیکن اس حق یعنی روٹی کے حصول میں بھی ہم فلسطینیوں کو سخت جدوجہد کرنی پڑی، اکثر فلسطینی خاندان ایسے تھے جن کے پاس رقم ختم ہوچکی تھی وہ کچھ بھی خریدنے کے قابل نہیں رہے ، دوسری طرف جو امدادی ایجنسیاں تھیں ان کے پاس بھی راشن ختم ہوچکا تھا اور ایک ایسا بھی مرحلہ آیا جب کیڑوں سے متاثر آٹا اور ایسی بند ڈبا غذائی اشیاء جن کی مدت استعمال ختم ہوچکی وہ نعمت غیر مترقبہ میں تبدیل ہوچکی تھیں۔ ہاں میں نے جس دائرہ کی بات کی وہ دائرہ بیماری یا موت (شہادت) سے ہی ٹوٹتا رہا، لوگوں نے اپنے شہید عزیزوں کی تجہیز و تکفین کے لئے روایتوں کو توڑا ان کے پاس غم کے سواء کچھ نہ رہا، آنسوؤں کے سواء وہ اپنے شہید عزیزوں کو کچھ نہ دے سکے لیکن اس قدر زیادہ جانی و مالی نقصان کے باوجود فلسطینیوں نے مایوسی کا اطہار نہیں کیا بلکہ گذتے دن کے ساتھ ان کے عزم و حوصلوں میں اضافہ ہی ہوتا رہا۔ ہر غم ہر درد فلسطینیوں نے بڑی بہادری سے برداشت کیا اور شہادت کو خود کے لئے نعمت عظمی سمجھا۔ ایک طرف فلسطینیوں کا قتل عام جاری تھا دوسری طرف بیرونی دنیا نے اس قتل عام کی تصاویر اور ویڈیوز کا مشاہدہ کیا، ان تصاویر اور ویڈیوز میں فلسطینی بچوں، خواتین اور فلسطینی مردوں کے اسرائیلی فوج کے ہاتھوں شہید ہوتے دیکھا لیکن دنیا نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو بڑی خاموشی سے موت کا مزہ چکھ رہے تھے، انہیں یہ ضرور معلوم تھا کہ ہر نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے۔ مختلف امراض میں مبتلا ہوکر موت کی آغوش میں پہنچنے والے فلسطینیوں میں ایسے لوگوں کی کثیر تعداد تھی جن کے امراض قابل علاج تھے لیکن اسرائیل کی انسانیت دشمنی کے نتیجہ میں انہیں علاج کی بہتر سہولتیں اور ادویات نصیب نہیں ہوئیں جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہ تڑپ تڑپ کر اپنی جانیں دینے پر مجبور ہوگئے۔ ساری دنیا نے یہ بھی دیکھا کہ ان اموات کو ان اموات میں شامل نہیں کیا گیا جو اسرائیل کے ہاتھوں ہوئیں۔ دنیا نے ان کیمپوں کو بھی دیکھا جہاں غم سے نڈھال وہ فلسطینی مقیم تھے جن کے عزیز رشتے دار اسرائیل کے زمینی اور فضائی حملوں میں شہید ہوئے تھے، وہ ان کیمپوں میں خاموش بیٹھے اپنے شہید رشتے داروں کے حق میں دعا گو ہیں ہاں موت سے بچنے کے بعد وہ بھی وقت کے دائرہ میں واپس چلے جائیں گے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ ضروری ہوگا کئی ماہ کے اجتماعی نقصان، تباہی و بربادی کے بعد یہ محسوس کیا گیا، اب زیادہ لوگ موت سے نہیں بچ پائیں گے۔ ان کے بچنے کے امکانات موہوم ہوچکے ہیں۔ میری طرح کئی فلسطینیوں کا یہی احساس تھا اور چونکہ اپنا انجام ہمیں معلوم تھا کہ کسی بھی وقت جام شہادت نوش کرسکتے ہیں اور اسرائیل کی بمباری کی زد میں اسکتے ہیں، اس لئے خوف و دہشت پر مبنی سکون تھا ایک ایسا سکون جس میں سب خاموش تھے کسی کی زبان سے کوئی لفظ نہیں نکل پارہا تھا۔ 15 ماہ قبل ہمارے پاس خوشیاں تھیں چہروں پر مسکراہٹیں کھلا کرتی تھیں، ہم اپنے خوابوں اور امیدوں سے بھری پرلطف زندگیاں گذاررہے تھے لیکن حالات ایسے تبدیل ہوئے کہ ہم خود کو پہچان نہیں پا رہے ہیں باالفاظ دیگر اب ہم ہم جیسے نہ رہے ہمارا سوچنا ہے کہ ہم، ہم باقی نہیں رہے۔ اجتماعی تباہی اس قدر بھیانک تھی کہ کہیں بھی کسی بھی حصہ میں آرام و سکون کا نام و نشان نظر نہیں آرہا تھا۔ کوئی بھی یہ کہنے کے قابل نہیں تھا کہ ہمارے اندر کیا ہو رہا ہے۔ جس دائرہ تک ہم محدود رہ گئے ہیں اس دائرہ میں کیا ہو رہا ہے کیونکہ ہم سب ایک ہی تاریک مقام پر محصور ہوچکے تھے۔ اکثر مجھے اس بات پر ہنسی آتی کہ بھوک کی وجہ سے میرا جسمانی وزن بہت کم ہوگیا جس کی ہمیشہ مجھے بہت حواہش تھی اور لاکھ پرہیز اور احتیاط کے باوجود میری وہ حواہش پوری نہ ہوسکی تھی لیکن اسرائیل کی وجہ سے فلسطینی بناء کسی پرہیز کے اپنا جسمانی وزن کنوا بیٹھے، میں نے دیکھا کہ خیموں میں پریشان کن حالات میں زندگی گذارتے گذارتے صرف 15 ماہ میں میری ماں کے بال سفید ہوگئے لیکن ہم اس پر مایوس نہیں ہوئے بلکہ ہنستے رہے۔ میں جانتی ہوں کہ بالوں کے سفید ہونے سے انہیں شکست نہیں ہوگی وہ تو رنگوں سے پیار کرتی ہیں اور وہ کئی چیزوں (فنوں) میں ماہر خاتون ہیں۔